Sirat e Mustqeem

April 26, 2013

شیئرنگ


آج بہت دن کے بعد سارہ اپنے میکے گئی تو گھر میں خاصی ٹینشن تھی ۔ امی ابو چپ چپ سے تھے ۔ نوشین بھی کچھ کھنچی کھنچی سی نظر آئی۔ ایک ہی چھت کے نیچے رہنے والے افراد ایک دوسرے کے لئے اجنبی اجنبی معلوم ہو رہے تھے ۔ اس گھر کا ماحول ایسا تو نہیں تھا ۔ سارہ نے چونکہ ہمیشہ ایک دوستانہ اور بے تکلف ماحول میں زندگی بسر کی تھی ،  چنانچہ اسے اس صورتحال سے سخت کوفت ہو رہی تھی ۔ اس نے سوچا کہ ماحول کی کشیدگی کو دور کرنے کے لئے کچھ کوشش کروں۔ امی ابو کا موقف جاننا چاہا تو معلوم ہوا کہ ان کو بہو بیگم یعنی نوشین سے کچھ شکایات تھیں ۔ “نہ ہماری کوئی پرواہ ہے نہ گھر کے کاموں سے کوئی دلچسپی ہے ۔ راتوں کو دیر تک جاگنا ، صبح دن چڑھے تک سوتے رہنا ۔ ہم کچھ سمجھانے کی کوشش کریں یا ذمہ داریوں کا احساس دلائیں تو زبان درازی شروع  ہو جاتی ہے ۔ ۔۔”

نوشین سے بات کی تو وہ الگ بھری بیٹھی تھی: “سارہ آپی ! مجھے اگر پتہ ہوتا کہ مجھے اس ماحول میں زندگی گزارنی پڑے گی تو میں کبھی زبیر سے شادی نہ کرتی ۔ نہ بندہ اپنی مرضی سے سو سکتا ہے نہ اٹھ سکتا ہے ۔ قدم قدم پر پابندیاں ۔ کسی چیز کی کوئی آزادی ہی نہیں ہے ۔ میری بہنوں کی بھی شادیاں ہوئی ہیں لیکن وہ تو اپنی مرضی سے زندگی گزار رہی ہیں۔ “

” مگر وہ علیحدہ گھر میں رہتی ہیں ” سارہ نے یاد دلایا۔

“اس سے کیا ہوتا ہے ؟ میری اپنی پرسنل لائف  personal life ہے ۔ مجھے بے جا مداخلت پسند نہیں ہے ۔ آپ بتائیں ! کیا شوہر کے والدین کی خدمت بہو پر فرض ہے ؟”

سارہ نے کہا  : “شرعی طور پر تو فرض نہیں ہے ۔ لیکن نوشین ! تم یہ کیوں بھول رہی ہو کہ ہماری کچھ معاشرتی اقدار بھی ہیں ، جن میں بہو شوہر کے والدین کو اپنے والدین کی طرح ہی سمجھتی ہے۔ اور ان کی اسی طرح خدمت کرتی ہے ۔ میرے بھی ساس سسر ہیں ، جو ہمارے ساتھ ہی رہتے ہیں ۔ ان کی خدمت کرتے ہوئے جہاں میں ان سے ڈھیرو ں ڈھیر دعائیں لے رہی ہوتی ہوں ، وہیں یہ احساس بھی مجھے سرشار کئے رکھتا ہے کہ میرے شوہر میرے اس روئیے کے باعث اپنے والدین کے حوالے سے کس قدر مطمئن ، بے فکر اور میرے کس قدر احسان مند رہتے ہیں۔ میں تو ہرگز گوارا نہیں کر سکتی کہ میری ساس اس عمر میں کچن میں کھڑے ہو کر کھانا بنائیں یا برتن مانجھیں یا کپڑے دھوئیں ، کہ اب ان کی عمر ان کاموں کی تھوڑی ہے ۔ “

 ” آپی  ! آپ برداشت کر سکتی ہوں گی ، لیکن میں آپ کو صاف صاف بتا رہی ہوں کہ ۔۔۔ مجھ سے شیئرنگ sharing  برداشت نہیں ہوتی ۔۔۔ چاہے وہ زبیر کے والدین ہوں یا بہن بھائی  ” نوشین چمک کر بولی ۔

” نوشین پلیز ! تمہیں یہ تو پتہ ہے کہ شوہر کے والدین کی خدمت بہو پر شرعاً فرض نہیں ہے ۔۔۔ لیکن شریعت اور بھی بہت کچھ کہہ رہی ہے، اس کو بھی دیکھ لینا چاہئے ! ” سارہ نے دھیمے لہجے میں کہا ۔

“دیکھو نوشین ! پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جہنم میں عورتیں کثرت سے ہوں گی ، اور ایک سبب اس کا یہ بتایا کہ اکثر عورتیں خاوندوں کی ناشکری کرتی ہیں۔ اور ایک جگہ فرمایا  کہ اللہ ایسی عورت پر رحمت کی نظر نہیں ڈالتا ، جو شوہر کی ناشکری کرتی ہے ۔ “

“تو اب تم نے یہ جو کہا ناں کہ مجھے اگر پتہ ہوتا کہ مجھے اس ماحول میں زندگی گزارنی پڑے گی تو میں کبھی یہاں شادی نہ کرتی ۔تمہارے ان الفاظ سے ناشکری کی بو آتی ہے ۔ مجھے بتاؤ ! کس چیز کی کمی ہے تمہیں یہاں ؟ زبیر کیا تمہارا خیال نہیں رکھتا ؟ تمہاری رسپیکٹ respect نہیں کرتا ؟ اتنی اچھی اس کی جاب ہے ۔ ہینڈسم سیلری ہے ۔ اپنی بساط کے مطابق اچھا کھلاتا ہے ۔ اچھا پہناتا ہے ۔ تم برانڈ کونشیئس brand conscious  ہو تو وہ تمہیں تمہاری پسند کے کپڑے ، جوتے اور پرفیومز دلواتا ہے ۔ تمہارا حد درجہ خیال رکھتا ہے ۔ تمہارے میکے جانے پر بھی کوئی پابندی نہیں ہے ۔ اور کیا چاہئے تمہیں ؟ “

نوشین نے سر کو جھکا لیا ۔

پھر سارہ نے پوچھا : “اچھا ذرا یہ تو بتاؤ کہ زبیر کو کتنا جانتی ہو؟”

“کیا مطلب ؟ ” نوشین اس اچانک سوال کے لئے تیار نہ تھی ۔

“مطلب یہ کہ زبیر کی پسند ناپسند کے بارے میں کیا جانتی ہو؟ “

“سب کچھ  ۔  ” نوشین نے بڑے پر اعتماد لہجے میں کہا ۔

” کھانے میں زبیر کو کیا پسند ہے ؟ “

” کوفتے ۔”

“مشروبات میں؟ “

“لسی ۔”

“ملبوسات؟”

“جنید جمشید یا بونینزا  Bonanza ۔”

“جینز؟ “

“لیوائس Levi’s ۔”

“شرٹس ؟”

“مارکس اینڈ اسپنسر Marks n Spencer  یا کیمبرج  Cambridge کی ۔”

” جوتے؟ “

“اربن سول Urban Sole؟”

“پرفیومز؟ “

“ہیواک Havoc اور ایٹرنٹی Eternity۔  ۔۔لیکن اس انٹرویو کا مقصد ؟” نوشین نے الجھتے ہوئے سوال کیا ۔

” مقصد یہ ہے نوشین ! کہ تمہیں یہ تو پتہ ہے کہ زبیر کو کھانے میں کیا پسند ہے ، ملبوسات میں کیا پسند ہے ، شوز کون سے پسند ہیں ، پرفیوم کون سا پسند ہے۔۔۔ لیکن نہیں پتہ … تو یہ نہیں پتہ ، کہ زبیر کو یہ بھی پسند ہے کہ تم اس کے والدین کا خیال رکھا کرو ۔ ٹھیک ہے کہ شرعی طور پر تم اس بات کی پابند نہیں ہو اور زبیر بھی تمہیں اس کے لئے فورس force  نہیں کرتا ، لیکن کیا تم اپنے شوہر کی خوشنودی کے خیال سے اس کو یہ فیور favor نہیں دے سکتیں ….اس سلسلے میں اس کو کیئر فری care free  نہیں کر سکتیں؟ “

نوشین کچھ جھینپ سی گئی ۔

سارہ نے اپنی بات جاری رکھی ۔” دیکھو نوشین ! ہر فرد کا اپنا ایک الگ مقام ہوتا ہے ، کوئی دوسرا اس کی جگہ نہیں لے سکتا ۔۔۔شوہر بھائی کی جگہ نہیں لے سکتا ، بیوی بہن کی جگہ نہیں لے سکتی ، نہ ہی ماں بیوی کی جگہ لے سکتی ہے ۔ اگر زبیراپنے دوستوں کے ساتھ کچھ وقت گزارے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں لیا جا سکتا کہ زبیر دوستوں کو زیادہ اہمیت دیتا ہے اور تمہاری امپورٹینس Importance  اس نظر میں کم ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہر رشتہ کی اپنی اہمیت ، اپنے تقاضے ہیں۔ جس طرح تم پر اپنے شوہر کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی بھی ذمہ داریاں ہیں ، اسی طرح زبیر پر اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ساتھ اپنے والدین اور بہن بھائیوں کی بھی ذمہ داری ہے ۔ اگر وہ اپنے والدین یا متعلقین کو کچھ وقت دیتا ہے تو تم اس کو شیئرنگ کیوں تصور کرتی ہو ؟ “

” دیکھو نوشین ! یہ حدیث یقیناً تمہارے علم میں ہو گی کہ ۔۔۔ اگر کسی بشر کو لائق ہوتا کہ وہ دوسرے بشر کو سجدہ کرے ۔۔۔ تومیں عورت کو کہتا کہ جب شوہرگھر میں آئے اسے سجدہ کرے ۔۔۔ اس فضیلت کے سبب ، جو اللہ نے اسے اس پر رکھی ہے۔ “

“بحیثیت مسلمان ، ہمارا ایمان ہے کہ ہمارا رب ایک اکیلا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ہے ۔ لیکن وہی رب کہتا ہے کہ ۔۔۔اطیوا اللہ و اطیعو الرسول ۔۔۔ اطاعت کرو اللہ کی بھی اور اس کے رسول کی بھی ۔ وہی رب کہتا ہے ۔۔۔ ان اللہ و ملٰئکتہ یصلون علی النبی ۔ یاایھا الذین اٰمنوا صلو علیہ وسلمو تسلیماً ۔۔۔ کہ اللہ اور اس کے فرشتے پیارے نبی ﷺ پر درود و سلام بھیجتے ہیں ۔ تو اے ایمان والو! تم بھی پیارے نبی ﷺ پر درود و سلام بھیجا کرو ۔۔۔ وہی رب کہتا ہے کہ ۔۔۔لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ  ۔۔۔ کہ تمہارے لئے رسول ﷺ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے ۔۔۔ تو کیا ان آیات سے کیا یہ مطلب نکالا جا سکتا ہے کہ نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کواپنا شریک قرار دے دیا ہے ۔۔۔ ہرگز نہیں ۔  بلکہ ان مثالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خوشنودی کے حصول کی کوشش کرنا ، اللہ تعالیٰ کی خوشی اور رضا کا باعث ہے ۔۔۔ “

“تو اسی طرح اگر زبیر اپنے والدین یا بہن بھائیوں کو کچھ وقت دیتا ہے ۔۔۔یا تم سے یہ توقع رکھتا ہے کہ تم ان کی کیئر care کرو ۔۔۔ تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کوئی تمہارے شوہر کو تم سے چھیننا چاہتا ہے ۔ خوابوں کی دنیا سے باہر آؤ نوشین ! ایک ذرا سا اپنے آپ کو مولڈ mould کر لو ، راج کرو گی راج !” سارہ کے دلائل مکمل ہو چکے تھے ۔

“آئی ایم سوری سارہ آپی! میں غلطی پر تھی ۔ مجھے احساس ہی نہیں تھا کہ میں ناشکری کی مرتکب ہو رہی تھی ۔ توجہ دلانے کا شکریہ ۔ میں کوشش کروں گی کہ آئندہ کوتاہی نہ ہو ۔ ” نورین نے ندامت سے کہا ۔

“میری اچھی بہن ! تم نے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا ، یہ تمہارا بڑا پن ہے ۔ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا ہے … معاف کرنے کو پسند کرتا ہے … دعا کرو کہ وہ ہماری  ساری کوتاہیاں معاف فرمائے ۔”

“آمین “۔ نورین نے دل و جان سے کہا ۔

“آخر میں یہ بھی سمجھ لو کہ اسلام نے مرد کو چار بیویاں رکھنے کی اجازت دے رکھی ہے ۔۔۔ شکر کرو کہ آجکل کے مردوں کا دھیان اس طرف نہیں جاتا، ورنہ ہمیں لگ پتہ جاتا کہ شیئرنگ کیا ہوتی ہے۔  “

اس بات پر دونوں کھلکھلا کر ہنس پڑیں ۔

1 Comment »

  1. PAKEEZA ka ramadan ul mubarik shumara jama di ussani me shaya hogaya he jald hi book Korean””””’sir aap kuch jaldi happy ending kargaey koi situation banate bara margin tha

    Comment by azhar — April 27, 2013 @ 1:39 pm


RSS feed for comments on this post. TrackBack URI

Have your say!

Create a free website or blog at WordPress.com.