Sirat e Mustqeem

July 15, 2013

ان سارے جزیروں کو کوئی کاش ملا دے


کیا وقت ہے یہ بھی!  ایسا لگتا ہے   پوری دنیا میں اگر کہیں خون بہہ رہا ہے تو وہ مسلمان کا  ہے۔  لگتا ہے زمین نے مسلمان خون کے علاوہ کچھ قبول کرنے سے انکار کر دیا  ہو۔ وہ برما ہو یا فلسطین۔ شام ہو یا  سوڈان۔ افغانستان، پاکستان، بنگلہ دیش ، بھارت،   کاشغر، ہر جگہ مرنے والا کلمہ توحید کا ماننے والا۔  کہیں ریاستی جبر ہے تو کہیں بیرونی۔ پھر بھی  تمام مسلمان حکومتیں ایک دوسرے کے حالات سے یا تو  لا تعلق نظر آتی ہیں جیسے  بنگلہ دیش افغانستان کے بارے میں یا پاکستان برما کے بارے میں ۔ یا وہ براہ راست اس ظلم کی مدد کر رہی ہیں، جیسے شام میں ایران اور حزب اللہ ۔  مصر کے حالات پر  سعودی اور پاکستانی   ہر دو قیادتیں  خاموش۔

اس تقسیم کو اور  علاقائی  پیمانے پر لے آئیں اور محض پاکستان کا ذکر کریں تو  یہاں بھی حالات دگرگوں ہیں۔ وزیرستان میں ڈرون حملے، کوئٹہ میں ہزارہ قبائل کی صورتحال، کراچی میں روز گرتی  بظاہر بے نام لاشیں، پنجاب کی بند ہوتی صنعتیں، سندھ میں ونی کی گئی لڑکیاں ، بلتستان میں مرتے سیاح۔   پورے ملک میں ہوتے دھماکے۔ یہ   بچوں کو کھانا کھلانے سے قاصر ،خودکشیاں کرتے اور   ان کا علاج نہ کرا پانے کی  خلش کے ساتھ زندہ  رہنے والے ماں باپ ۔ قدم قدم پر چھوٹےچھوٹے کاموں کے لیے اہلکاروں کی مٹھی گرم کرنے کی مجبوری۔  ان میں سے ہر مسئلے کا ایک چیمپئن ہے۔  جس نے رشوت ستانی کا مسئلہ دیکھ لیا اس کے لیے  قیدی چھڑانے والے کی  جدوجہد لا حاصل،  اور جو  شہروں کے دھماکوں پر سراپا احتجاج ہے وہ  ڈرون حملوں پر احتجاج کرنے والوں پر سراپا تنقید۔  جس نے سیاسی  جدوجہد کا راستہ دیکھ لیا اس کے لیے  دوسرے تمام طریقے  بدعت اور جس نے اسلحہ اٹھا لیا اس کے لیے  باقی سب طفل مکتب!

اس تفریق کا اور کسی  پر   اتنا منفی اثر نہیں ہوا جتنا مذہبی طبقہ پر۔  اس کی وجہ کیا ہے یہ ہم آگے دیکھتے ہیں ۔ فی الحال تو یہ دیکھ لیں کہ   اوپر گنوائے گئے  اور دیگر تمام مسائل کے  ساتھ  جب الیکشن ہوئے تو لوگوں نے اسلامی جماعتوں کو   نہ صرف  یہ کہ ان مسائل کے حل کے لیے  اپنے اعتماد کے قابل نہیں سمجھا بلکہ  ایک صوبے کے علاوہ ان کو    اس دفعہ کہیں منہ بھی دکھانے کے قابل  نہیں چھوڑا۔   پورے ملک کی ایک ہزار کے قریب صوبائی اور  قومی اسمبلیوں کی نشستوں سے  اسلامی جماعتوں کے ہاتھ کتنی آئیں؟ پندرہ فیصد؟دس فیصد؟  جی نہیں  تین فیصد سے بھی کم یعنی  بمشکل  تیس سیٹیں۔

بات یہ ہے کہ  اسلامی ،خاص طور پر اسلامی غیر  سیاسی قوتوں  کو واقعی اس بات کا ادراک ہوتا نظر نہیں آتا (یا وہ اظہار نہیں کرتے) کہ لوگوں میں ان کی جڑیں کتنی کمزور ہو چکی ہیں۔  ایسا  لگتا ہے کہ  مذہبی قائدین  نے کسی خاص حکمت عملی کے تحت اپنے آپ کو ان حالات میں الگ تھلگ رکھا ہوا ہے۔  علماء  زیادہ بہتر جانتے ہوں گے کہ  اس کی وجہ کیا ہے اور اس کے لیے لازماً ان کے پاس دلائل ہوں گے ۔   اس سب کا نتیجہ یہ ہے کہ علماء اب   معاشرے کی رہنمائی کے منصب سے دست کش ہو گئے ہیں۔ اس کے باوجود ایسا نہیں ہے کہ ہمارے دینی طبقے سکون میں ہیں۔  یہ آئے دن کی فرقہ وارانہ ہلاکتیں کیا علماء کی نہیں ہیں؟ کیا مولانا اسماعیل عالم نہیں تھے؟ کیا مفتی دین پوری صاحب کوئی غیر اہم شخصیت تھے۔ کیا  مولانا اسلم شیخوپوری صاحب   کوئی گزارے لائق مولوی تھے؟   پھر کیا  گزشتہ  رمضان  کراچی کے سب سے بڑے دارالعلوم  کا محاصرہ نہیں کر لیا گیا تھا؟ کیا  گزشتہ رمضان میں ہی معتکفین کو مسجد میں گھس کر نہیں مارا گیا؟  کیا آئے دن مدارس کو زیادہ  سے زیادہ حکومتی کنٹرول میں لیے جانے کی باتیں نہیں ہور ہیں؟  اس سب کے بعد جب  کراچی کے صف اول کے علماء میں سے ایک  عالم ، جن کے اپنے مدرسے کے  اساتذہ اور طلبہ حالیہ مہینوں میں   شہید کیے جا چکے ہیں،  ملک کے نو منتخب وزیر اعظم کو  ایک کھلا خط لکھتے ہیں تو  یقین جانیے ایک لمحے کو تو دل میں ایک موہوم سی امید یہ  آئی تھی کہ  شاید یہ بھی   مصر کے  عزّ بن عبد السلام کی روایت قائم کریں گے۔   شاید یہ بھی  بادشاہ  وقت کو اس کے مفرد نام سے پکاریں گے اور اس کو کسی معاشرتی برائی کی طرف متوجہ کریں گے۔  شاید انہوں نے سود کے خلاف ایکشن لینے کو کہا ہوگا، شاید  ڈرون حملوں کے خلاف بات ہو گی، شاید امریکہ کی جنگ سے نکلنے کا حکم دیا ہو گا، شاید احادیث کی روشنی میں اور قرآن کی آیات کی رو سے کسی کافر کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر کسی مسلمان کے خلاف جنگ کرنے کے خلاف وعیدیں سنائی ہونگی۔ شاید مہنگائی کے خلاف بات کی ہوگی، شاید شیعہ سنی فرقہ واریت ختم کرنے کی بات ہوگی، شاید ناموس رسالت ؐ کی حفاظت کے بارے میں کوئی ہدایات ہونگی، شاید رشوت کے خاتمے اور سفارش کی روک تھام کی بابت تنبیہہ ہو گی اور  شاید اور کچھ نہیں تو  حاکم وقت سے  اللے تللے ختم کرنے کی بات ہوگی۔ مگر حیف صد حیف کہ  خط جب پڑھا تو اس کا لب لباب تھا کہ ‘جناب اعلیٰ قبلہ وزیر اعظم صاحب دام اقبالہ سے گزارش ہے کہ جمعے کی  ہفتہ وار تعطیل  بحال فرما دیں”!! یقین کریں اگر کسی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہفتہ وار تعطیل کس دن کرنی ہے تو ہماری رائے میں  وہ ملک روئے ارضی پر جنت سے کم نہیں۔

 بہ صد ادب کہ  حضرت کی امامت میں بارہا   نمازیں ہم بھی ادا کر چکے ہیں کہ  ان کا  تدیّن باعث تحسین ہے، میری نا چیز رائے میں  ایسے بے سروپا  اقدامات کی وجہ  صرف اور صرف ایک ہے۔ ایک  مرکزی قیادت کی غیر موجودگی۔  اگر ہمارے  ان بزرگوں  کی کوئی مرکزی قیادت ہوتی تو ان کے اقدامات اتنے افراتفری کا شکار نہ ہوتے۔ قیادت لیکن  ایسے ہی  پیدا نہیں ہو جاتی اس کے لیے کئی  اہل لوگوں کو قربانی دینی پڑتی ہے۔  ہمارے  بڑوں میں سے کچھ کا حال تو یہ ہے کہ اپنے مرتبے اور رتبے کا بھی خیال نہیں کرتے اور مخالفین کو ایسے ایسے ناموں سے پکارتے ہیں کہ کوئی دشمن بھی کیا پکارے گا۔  مشرک، بدعتی، جنت کے طوطے، بینکر،  مردودی، پراسراری، نجدی، وہابی، دیوگندی،   یہ سارے  نام  کلمہ توحید کے ماننے والوں کے ایک گروہ کے منہ سے دوسرے گروہ کے لیے نکل رہے ہیں۔ ایمان کے بعد برا نام لینا بھی برا ہے، سورۃ الحجرات کیا کہہ رہی ہے کیا ہم بتائیں آپ کو؟  اور انہی گروہوں کے ذرا اپنے بزرگوں کے لیے تراشے ہوئے القابات ملاحظہ کیجیے۔ کسی کو رومی ثانی کہا جا رہا ہے، کسی کو شیخ العرب والعجم، کسی کو مجدد ملت، کسی کو شیخ الاسلام، کسی کو  بلبل مدینہ کہا جاتا ہے تو  کسی کو  عارف باللہ۔  کسی  کے نام میں دامت برکاتھم  کا لاحقہ لگا ہے اور کسی کے ساتھ حفظہ اللہ اور کسی کے ساتھ  نور اللہ مرقدہ اور کہیں  پر قدس اللہ سرہ۔  یہ افراط و تفریط ایسے ہی نہیں ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ بزرگان دین ان ناموں کے اہل نہیں، ان میں سے چند یقیناً ہونگے بھی۔ لیکن  ان سابقوں اور لاحقوں پر مرنے مارنے کو دوڑنے سے پہلے اس ہستیؐ کے نام کی اگر حفاظت کر لی جاتی جس کے طفیل  ان بزرگوں کی عزت ہے تو یہ ان کے لیے یقیناً زیادہ باعث افتخار ہوتا۔

توہین ناموس رسالت کے واقعات  اگر بڑھ رہے ہیں تو کسی وجہ سے بڑھ رہے  ہیں۔   مسلمانوں کا نام ہر جگہ دہشت گردی میں لیا جا رہا تو کسی وجہ سے لیا جا رہا ہے۔ اس کی ایک ہی وجہ ہے، اور وہ ہے ایک مرکزی، متفقہ قیادت کی عدم موجودگی  جو مسلمانوں کو  بحیثیت مجموعی ایک لائحہ عمل طے کر کے دے۔    OIC یا عرب لیگ نہیں بلکہ ایسی قیادت جو واقعی مسلمانوں کو ایک جسد واحد کی طرح  چلائے۔   جس کی ایک خارجہ پالیسی ہو، ایک مالیاتی پالیسی ہو، ایک  صنعتی پالیسی ہو۔ چاہے تعلیمی اور داخلی پالیسیاں کچھ مختلف بھی ہوں تو اس بکھری ہوئی بے مہار امت میں پھر سے جان پڑ جائے گی۔  مسلمانوں کی عالمی  سطح پر پھر ایک آواز ہوگی۔ اگر تمام مسلمان  ممالک اس بات پر  اصولی طور پر متفق ہو جائیں تو پھر اس   ادارے کو آپ خلافت کا نام دے لیں یا ریاستہائے متحدہ اسلامیہ کا، بات ایک ہی ہے۔   مسلمان ممالک میں  مقتدر طبقات کے  مفادات اس معاملے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اور پھر وہ  اپنے ملک کے  دینی طبقات میں سے چند لوگوں کو خرید کر اپنا الو سیدھا کرلیتے ہیں۔  محض  چند اختلافات کی بناء پر النور پارٹی نے الاخوان کا ساتھ چھوڑ دیا۔   مرسی کو  نکال کر جو نگران حکومت بنی ہے ا س  میں النور کا  بھی کچھ حصہ ہے مگر انتظار کیجیے کہ کب اس کو دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال پھینکا جاتا ہے۔ ایسے ہی ہماری دینی جماعتیں ایک دوسرے کی  سعی   کو ناکام بناتی ہیں، کہیں دانستہ کہیں انجانے میں۔   ایک دوسرے کے پیچھے نماز تو پڑھ لیتے ہیں لیکن ہاتھ میں ہاتھ نہیں دیتے۔ اخلاقی ہمدردی تو کرتے ہیں  لیکن عملی  ساتھ نہیں۔ لال مسجد کا سانحہ ہوا لیکن پورے ملک کی  مذہبی جماعتوں نے سوائے  ایک رسمی احتجاج کے اور کچھ نہیں کیا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ ان کو  مولانا عبدالرشید کے طریقے سے اختلاف تھا۔  سب نے مانا کہ لال مسجد کے معاملے کو حد سے بڑھانے میں  پرویز مشرف کا کتنا گھناؤنا کردار تھا۔ کیسے اس نے ایک پھنسی کو پھوڑا بننے دیا اور  پھر اس کو  ریاستی طاقت سے ایسا کچلا کہ  آج تک اس کے اثرات محسوس کیے جاتے ہیں۔ یہ سب مان کر بھی، اور یہ سب جان کر بھی،  محض ‘تشریح’ کے فرق کی بنیاد پر   ہمارے دینی طبقے نے   اخلاقی ہمدردی  کو ہی کافی سمجھا اور اس  معاملے کو اس مقام تک جانے دیا  کہ  جہاں  محض بے بسی سے تماشہ ہی دیکھا جا سکتا تھا۔  پرویز مشرف نے  ایک ایک کر کے یہی  کھیل باقیوں کے ساتھ بھی کھیلا ہے۔ کہتے ہیں جرمنی میں نازیوں نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ اس زمانے کے ایک پادری کا  یہ مشہور ٹکڑا تو آپ نے سن ہی رکھا ہوگا ؏

First they came for the communists,
and I didn’t speak out because I wasn’t a communist.

Then they came for the socialists,
and I didn’t speak out because I wasn’t a socialist.

Then they came for the trade unionists,
and I didn’t speak out because I wasn’t a trade unionist.

Then they came for me,
and there was no one left to speak for me.

محض دین کی تشریح  کے فرق کا مطلب ہے کہ  ہر جماعت نے سنت نبوی ؐ کا  مطالعہ کر کے  حضورؐ کی حیات طیبہ میں سے  جو چیز سب سے  زیادہ   اہم سمجھی اس کو اپنی جدوجہد کا مرکز بنا لیا۔  کسی نے تبلیغ کو اہم سمجھا، کسی نے  جہاد کو، کسی نے  سیاست کو  اپنا میدان عمل بنایا  تو کسی نے خیراتی کاموں کو، کوئی مسجد کی تعمیر کر رہا ہے تو کوئی مدرسہ تعمیر کیے چلا جا رہا ہے، کوئی  ذکر و اذکار  کے ذریعے سنت پر عمل کر رہا ہے تو  کوئی  تحریکی  کا م کر کے ایک  منظم جماعت تشکیل دینے  کا خواہش مند ہے۔  حضور نبی کریمﷺ کی حیات طیبہ  میں ہمیں ان میں سے اکثر  کام کسی نہ کسی  وقت میں کسی نہ کسی درجہ میں ملتے ہیں۔  سیرت  طیبہ ؐ میں ہم جہاد بھی دیکھتے ہیں اور تبلیغ بھی، جماعت سازی بھی دیکھتے ہیں اور ریاست کے امور پر مکمل گرفت بھی دیکھتے ہیں۔ معجزہ یہ ہے  کہ جو کام اللہ کے رسول ؐ نے تن تنہا انجام دیا، آج کئی کئی تنظیمیں مل کر بھی نہیں کر پارہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ  ایک دوسرے کے کام  سے متفق نہ ہونے کی وجہ سے  پہلے  بحث پھر اختلاف اور پھر سیدھا سیدھا ضد کا معاملہ ہو جاتا ہے ۔  پھر چونکہ معاشرہ میں دینی   جماعتوں سے  تعاون کرنے والوں کا  ایک وسیع مگر بالآخر  محدود  طبقہ ہے تو ان  کا  تعاون  انہی جماعتوں میں آپس میں تقسیم ہو جاتاہے ۔ کئی مسجدوں میں  ایک سے ڈیڑھ کروڑ روپے کے مینار کی تعمیر ہو جاتی ہے جبکہ  وہی پیسے کسی اور جگہ کسی  دوسرے ، زیادہ ضروری مقصد میں استعمال ہو سکتے تھے۔  لے دے کے بات وہی ایک مرکزی قیادت کی ہے جو  ان سارے اثاثوں کی امین  ہو اور  نہایت  دیانت داری اور خداخوفی  کے ساتھ اس مال کو استعمال کرے۔ ایک آواز ہو۔ جو اس سے ہٹ کر چلے وہ  صاف نظر آجائے کہ  یہ  دین کا  نمائندہ نہیں۔ پہلے ایک  شہر میں  ایسا اتحاد بن جائے پھر اس کو ملک تک پھیلا دیں۔  یہ مشکل  ضرور ہے،  ناممکن نہیں ۔

 اگر ایسا اتحاد نہیں ہو پا رہا تو  قصور  عوام کا بھی ہے  لیکن اصل قصور میرے نزدیک ان عقیدتمندوں کا ہے جو علماء کے اردگرد گھیرا  ڈال کر رکھتے ہیں۔  آج کے دور میں کسی بڑے عالم سے بات کرنا، اس سے کچھ ذاتی طور پر پوچھ پانا اس قدر مشکل کام ہے کہ جب تک آپ کے پاس کوئی  بڑی سفارش نہ ہو آپ علماء سے مل نہیں سکتے۔  اس کی وجہ وہ درمیان کے عقیدتمند ہیں جن کے نزدیک ان کے ‘حضرت’ سے کوئی سوال پوچھنا  اگر گناہ کبیرہ نہیں تو  مکروہ ضرور ہے۔   ایک  عقیدتمند ‘حضرت’ کی ویب سائٹ سنبھال  رہے ہوتے ہیں  تو دوسرے صاحب کے نزدیک   کسی  کا ان کے شیخ کو براہ راست فون کر لینا مداخلت فی الدین کے زمرے میں آنا چاہیے۔   اس سے زیادہ آسان تو   ٹی وی اور ریڈیو پر آنے والے ان نوسربازوں کو کال کرنا ہوتا ہے جن کے لیے  رمضان، ربیع الاول، محرم اور ذی الحجہ مقدس کم اور کمائی کے مہینے زیادہ ہیں۔  عوام ایسے ہی نہیں علماء سے کٹ رہے۔ ایک جمعہ کے اجتماع  میں راقم  نے امام صاحب  کو کہتے سنا کہ ‘عوام کو علماء کی ضرورت ہے، علماء کو عوام کی نہیں’ یہ مقولہ شاید پچیس سال پہلے صحیح تھا مگر آج  نہیں۔  Rand Corporation کی سفارشات میں صاف لکھا ہے کہ  ایسے علماء جو روایت پسندوں کی صف میں آتے ہیں ان کی جگہ ایسے لوگوں کو میڈیا پر لایا جائے  جن کی شہرت ترقی پسندوں کی ہے، جن کو مسجدیں نہیں  ملتیں۔  جو شراب کی حرمت کے بارے میں شکوک پیدا کریں، جو  بدعات کی ترویج میں ممد ہوں ، جو   فحاشی کو نئے معانی پہنائیں۔  اور پچھلے آٹھ دس سالوں میں ان سفارشات پر عمل کے نتیجے میں آپ دیکھ لیں کہ اس وقت سب سے زیادہ دیکھا جانے والا پروگرام ایک  ایسے پوشیدہ  رافضی کا ہے جو  عام محفل میں صحابہ کرامؓ کی شان میں گستاخی کرتا پکڑا گیا  اور ابھی بھی تقویٰ کا لبادہ اوڑھے رمضان  میں نئے  نئے کرتب دکھا  رہا ہے۔  یہ ذمہ داری عوام کی بھی ہے کیونکہ ان کو اپنے عمل کا حساب خود دینا ہے۔

لیکن علماء کو  بھی تو اپنے نمائندے چننے میں احتیاط کرنی چاہیے۔  گزشتہ شوال میں چاند کی رویت پر جو فساد ہمارے  ملک کی سب سے بڑی سیاسی مذہبی  شخصیت نے  بپا کیا وہ آنے والے دنوں کی ایک جھلک تھا۔ یہ خبر بہت نمایاں نہیں ہوئی ورنہ شوال اکتیس دن کا ہوتا نہیں ہے۔ اس ‘اہل حق کے مینار’ نے ایک صوبے میں اقتدار حاصل کرنے کے لیے  وہ  وہ پینترے  بدلے ہیں کہ  اچھے اچھے ماہر کرتب بازوں کو پسینہ آجائے۔  اب تو لگتا ہے کہ آنجناب کا مقصد محض اقتدار کا حصول ہے چاہے اس کے لیے وہ  امریکی سفیر کے پاس خود چل کر جائیں۔  دین محمدی ؐکے ماننے والوں کو اگر اقتدار مانگنے کے لیے  در در کی بھیک مانگنی پڑے تو ایسے اقتدار سے دوری ہی بھلی۔  علماء کا کام دین کی حفاظت کرنا ہے ، اگر اقتدار حاصل کر کے حفاظت ہوتی ہے تو ٹھیک نہیں تو  چار حرف بھیجیے ایسے اقتدار پر جس میں عزت سادات  بھی  ضائع ہونے کا اندیشہ ہو۔  چار حرف بھیجیے ایسے نمائندوں پر جن کے رہتے نہ مدرسے بچیں نہ اساتذہ۔ نہ طالبعلم بچیں نہ طالبات-  جنہوں نے  سب سے پہلے نعرہ لگایا کہ ‘طالبان اسلام آباد سے سو کلومیٹر پر رہ گئے ہیں’ اور وہاں سے کوڑوں کی ایک  جعلی ویڈیو نکل آئی اور پھر سوات میں لاکھوں لوگ اپنے ہی ملک میں بے گھر ہو گئے۔   سب سے پہلے تو ان  نام نہاد  نمائندوں سے  علمائے دین کو  اپنے آپ کو بچانا ہوگا ۔

اس  سلسلے میں وہ لوگ جو واقعی کسی عالم کے قریبی حلقے سے تعلق رکھتے ہیں  وہ اپنے عالم سے بات کریں۔ ان سے سوال کریں ،  کچھ مواقع پر ادب ہلاکت کا باعث ہو جاتا ہے۔ آپ صحابہ کرامؓ سے زیادہ  اپنے حضرت کی تعظیم نہیں کر سکتے ۔دین کے معاملے میں  صحابہ کرامؓ  کبھی نہیں شرماتے تھے، سوال کرتے تھے۔ تو اپنے حضرت سے پوچھیں کہ دوسرے علماء میں برائی کیا ہے۔  اس کو دوسرے عالم سے رابطہ بڑھانے میں مدد کریں۔  ایک دوسرے کے  لیے جو ان کے دلوں میں کچھ غلط فہمیاں ہیں وہ  ختم کرائیں۔  دوسرے مسالک سے رابطہ بڑھانے میں مدد کریں۔ شدت پسندی  اور تمسخر سے نہ   دوسرا مسلک ختم ہوگا نہ  اس  کے ماننے والے۔ یہ  سولہویں صدی کا اسپین نہیں ہے جہاں  تمام ‘دوسروں’ کو جہازوں میں بٹھا کر  افریقہ کے ساحلوں کی طرف روانہ کر دیا جائے۔ تو ہمیں   ایک ساتھ ہی رہنا ہے، تو اس ساتھ کو کیوں نہ  خوشگوار بنا لیا جائے؟ اگر آج  (رمضان۱۴۳۴ ہجری) کی رویت ہلال  جیسا ماحول پورے سال رہے تو یہ ملک اور یہ دین بہت جلد امن کا نشان بن جائے گا ان شاء اللہ۔ آج کوئی  چھوٹا نہیں ہوا ،   بلکہ سب اور بڑے ہو گئے۔  سب صحیح ہوئے اور کوئی غلط بھی نہیں ہوا۔ تو یہ  اکثر دوسرے مواقع پر بھی ہو سکتا ہے۔

علماء کے لیے اپنی جگہ  مضبوط ہونا ضروری ہے کیونکہ ستون تو مضبوط ہی ہوتا ہے  اسے اپنی جگہ سے ہلنا نہیں چاہیے۔ ان کے لیے  الگ الگ نظر آنے میں کوئی ایسی برائی نہیں  کیو نکہ مہیب  سمندر میں جزیرے  اور بھی خوبصورت لگتے ہیں۔ بس  ہم چاہتے ہیں کہ  یہ  دینی طبقے کسی ایک قیادت پر متفق ہو جائیں اور پھر  للہیت کے ساتھ اس پر صبر کریں۔ ایک چھت جب  مل جائے گی تو   اس کے سائے میں   یہ ستون بھی  آئیں گے۔   بس اس کے لیے مجھے، آپ کو، ہر اس شخص کو جو کسی بڑی مذہبی شخصیت کے حلقے تک رسائی رکھتا ہے اس کو ایک پل کا کام کرنا ہے جو کسی طرح ا ن تمام جزیروں کو آپس میں ملا دے۔ اگر  ہم  نے  صرف یہی کوشش کر لی اور اس  میں اخلاص کا دامن نہیں  چھوڑا تو اللہ سے امید ہے کہ   وہ ہم کو روز قیامت رسوا نہیں کرے گا۔  بصورت دیگر،  فرقہ بندی کو بھڑکانے میں  کہیں ہم بھی حصہ دار نہ بن جائیں!


Photo credit: gnuckx / Foter / CC BY

July 10, 2013

یہ وہ سحر تو نہیں


جولائی کے مہینے میں امریکہ ہی نہیں دنیا کے  تیئیس  دیگر ممالک  بھی اپنا  یوم آزادی   مناتے ہیں۔  ارجنٹائن، بیلارس، وینیزویلا اور پیرو  اور خود امریکہ سمیت  ان  میں سے اکثر ممالک نے یہ آزادی بیرونی طاقتوں  کے شکنجے سے حاصل کی تھی۔  امریکہ کے یوم آزادی کی رات تحریر اسکوائر میں لوگوں کو اچھلتے کودتے دیکھ کر  ایسا لگ رہا تھا کہ مصر نے کسی ایسے ہی  ظالمانہ   استعماری  نظام سے نجات حاصل کرلی ہے۔ یہ اس لیے بھی عجیب تھا کیونکہ مصر  نے اگر حسنی مبارک کو تیس سال برداشت کیا تھا اور اس سے پہلے انور السادات اور جمال عبد الناصر اور شاہ فاروق وغیرہ   کو  بھی  برسوں جھیلا تھا تو   اس بار جانے والی حکومت تو نہ فوجی آمریت تھی اور نہ   استبدادی بادشاہت۔ یہ لوگ  تو ایک ایسی حکومت کے خاتمے کی خوشی منا رہے تھے جس  کو ان کے ملک کی  ‘اکثریت’ نے  مرحلہ وار انتخابی عمل کے بعد منتخب کیا تھا۔ محمد مرسی کو  حسنی مبارک سے تشبیہہ دینے والوں نے یہ بھی نہ دیکھا کہ  مرسی نے تو نہ مخالفین سے جیلیں بھرنے کی پالیسی اپنائی،  نہ اپنے مخالفین کے ہجوم پر فائرنگ کروائی ،  نہ  خود پر تنقید کرنے والوں  کو اغواء کروایا،   نہ اپنی ذات کو حرف آخر  اور عقل کل سمجھا(حالانکہ مصر کے نئے منظور شدہ آئین کے بارے میں  پھیلایا گیا  عام تاثر یہی ہے) اور نہ اپنے سے مخالف نظریات کے پرچارکوں کے لیے عرصہ حیات تنگ کیا۔  مرسی پربظاہر الزام ہے تو صرف یہ کہ  وہ دوسرا ‘مبارک’ بننے جا رہا تھا جبکہ درحقیقت ایسا نہیں ہے۔

حقیقت اگر ہے تو  یہ کہ قاہرہ میں خوشیاں مناتے لوگ درحقیقت ایک اسلام پسند حکومت کے خاتمے کی خوشی منا رہے ہیں۔  حقیقت  اگر ہے تو یہ  کہ جب شراب خانوں پر پابندی اور فحاشی پر قدغن لگی تو مصر کے ان  ‘لبرل’ لوگوں  نے  اسی حسنی مبارک کے تیس سالہ دور استبداد کو مرسی کے ایک سالہ دور    استقبال پر ترجیح دی۔  حقیقت اگر ہے تو یہ ہے کہ  مصر، الجزائر، ترکی ، فلسطین اور دنیا بھر میں جہاں بھی اسلام پسند  ‘جمہوری’ حکومتوں کا خاتمہ ہوا ہے   اس کو  مغربی جمہوری ملکوں کی  حمایت  حاصل رہی ہے۔  اور حقیقت اگر ہے تو یہ کہ  بارہ سال  میں پہلی دفعہ کسی حکومت نے اسلام  کو  ریاست کو امور میں مدخل کرنے کے لیے محض چند ہی اقدام کیے تھے   اور اس  کو بھی اسی طرح طاقت کے ساتھ ہٹا دیا گیا جس طرح بارہ سال پہلے طالبان کو ہٹا دیا گیا تھا۔  حقیقت یہ ہے کہ اوبامہ نے اپنی خاص منافقت سے کام لیتے ہوئے جو الفاظ  اپنی تقریر میں رکھے ہیں ان میں ‘تشویش’ اور ‘جمہوری عمل’ کے الفاظ تو ہیں  مگر یہ کہیں نہیں کہا کہ  مصری فوج کا یہ عمل   غلط ہے۔ حقیقت اگر ہے تو یہ کہ اس موقع  پر’ لبرلوں اور سیکولروں ‘ کی منافقت کا پردہ چاک ہو گیا ہے۔  الکُفرُ  مِلّۃٌ  واحدۃٌ   کی ابدی حقیقت سے ہم کو تو  نبی رحمت ؐ  نے  پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا، یہ تو ہمارے ہی لوگ تھے جو  دوڑ دوڑ کر ان میں گھسے جاتے تھے۔

لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ  الاخوان المسلمون کی حکومت  کے خاتمے میں فیصلہ کن کردار فوج نے نہیں، بلکہ  اسلامی قوتوں نے ادا کیا۔ مصر کیا  پوری دنیا کی تاریخ میں پہلی بار کسی  بڑے ملک میں ایک  اسلامی جمہوری جماعت اس قدر  اکثریت کے ساتھ منتخب بھی  ہوئی اور حکومت قائم بھی کر سکی   مگر  جب وہ گئی تو اس کا ساتھ دینے سے ان کے  اسلامی  اتحادیوں نے نہ صرف انکار کر دیا بلکہ  بالفعل ان کے مخالف کیمپ  میں  جا کھڑے ہوئے۔  جامعۃ الازہر  کے علماء نے ایک  بار  پھر سیکولر  عناصر کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں مدد دی  اور اس شخص کے خلاف چلے گئے جس نے کئی دہائیوں میں پہلی بار اقتدار کے ایوانوں میں اللہ کا کلمہ بلند کیا۔ایک بظاہر سیکولر مگر   پیدائشی عیسائی  بلکہ یہودی عدلی المنصور کی حلف برداری میں  غیر مذہبی جنرل الفتاح سیسی کا ہی نہیں ، مذہبی  النور  پارٹی  اور  انتہائی قابل احترام  جامعۃ الازہر   کا بھی بھرپور کردار ہے۔

مصریوں کے بارے میں ایک تاریخی قول  چلا آتا ہے، رِجال ٌ   تَجمعھم الطّبول و ھم مع من غلب ۔ (مصر کے  مرد  ایسے ہیں جن کو ڈھول کی تھاپ اکھٹا کرتی ہے اور وہ اس کے ساتھ ہیں جو غالب آجائے) ۔ یہ کوئی مصر کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔  ہماری عوام بھی مجمع بازی میں کافی خود کفیل ہے۔  بس بازی گر کے پاس ‘مسالہ’ اچھا ہونا چاہیے، لوگ اپنے اصل مسائل بھول کر  نہایت  خلوص کے ساتھ  ان  ڈھولچیوں کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔   پاکستان میں عام لوگوں نے مصر کے حالات پر کوئی خاص ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ شاید اس لیے کہ اس کو الیکٹرونک میڈیا پر خاطر خواہ وقت نہیں دیا گیا۔  پرویز رشید صاحب جو حکومت پاکستان کے ترجمان ہیں، انہوں نے  کہا کہ پاکستان کی طرف سے  سرکار ی ردعمل تین سے چار دن میں آئے گا، باوجود اس کے کہ ۱۴ سال پہلے وہ اور ان کے قائد بعینہ اسی عمل سے خود گزر چکے ہیں۔ خلیجی ریاستوں کی طرف سے   تقریباً وہی ردعمل ظاہر کیا گیا ہے جو انہوں نے  اکتوبر  2001  میں افغانستان اور  مارچ 2003 میں  عراق پر امریکی  جارحیت میں  دیا تھا، یعنی  امریکی لائن کی حمایت۔

پاکستان کے   تناظر میں  اگر ہم  مذہبی اور غیر مذہبی   قوتوں کی صورتحال کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے  کہ  لبرل اور سیکولر عناصر  میں اسلامی قوتوں سے زیادہ  ایکا ہے۔  سیکولروں  کی مجبوری یہ ہے کہ  وہ ایک جمہوری حکومت کے خاتمے پر خوشی کا اظہار بھی  نہیں کر  سکتے لہٰذا انہوں نے  اس فوجی بغاوت کی  ذمہ داری الٹا الاخوان پر ڈال دی  ہے کہ اس نے   مصر کی تاریخ میں پہلی بار ایک  جمہوری طور پر منتخب حکومت کی حیثیت سے  اپنی عوام کو  مایوس کیا اور فوج کو  مداخلت کا جواز فراہم کیا۔  ایاز امیر صاحب نے اپنے کالم میں  لکھا کہ مسلم دنیا کی مشکل ہی یہ  ہے کہ یہ  اپنی علاقائی  حدود کی بنیا د پر سوچتے نہیں۔  انہوں نے مرسی  کا تقریباً مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ اپنا گھر سنبھل نہیں رہا تھا اور  وہ  شام کے حالات میں مداخلت کر رہے تھے۔ دوسری جانب  ہمارے مذہبی حلقے   مصر کی تازہ ترین صورتحال میں محض پوائنٹ اسکورنگ کرتے رہ گئے ہیں، الّا ماشا ءاللہ۔  جنہوں نے  اپنی جدوجہد کے لیے انتخابی میدان منتخب کیا تھا وہ  مصر میں  ‘جمہوری’ حکومت کے خاتمے پر مظاہرہ کر رہے  ہیں۔ اور جنہوں نے انتخابی میدان منتخب کرنے کو غلطی قرار دیا وہ  اس فوج کشی کو جمہوری عمل کی ناکامی کا معنی پہنا رہے ہیں۔  واضح رہے کہ جس وقت الاخوان کی حکومت آئی تھی تو  اس وقت  بغلیں بجانے اور  بغلیں جھانکنے کی ترتیب اس کے برعکس تھی۔ سہ ماہی ایقاظ  نے اپنے تازہ مضمون میں  طرفین کے اچھے خاصے لتے لیے ہیں کہ  پہلی بات تو یہ کہ کسی کی ناکامی، ہماری کامیابی کی  ضمانت نہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ یہ وقت ایک دوسرے سے لڑنے کا نہیں  ہے۔ بلکہ  اس وقت پہلے سے زیادہ ایک نظر آنے کی ضرورت ہے۔

مصر میں فوجی بغاوت کے بعد مغربی  لکھاریوں کے آنے والے   مضامین اس حقیقت کی غمازی ہی نہیں کر رہے بلکہ ببانگ دہل اس بات  کا اعلان کر رہے  ہیں کہ ان کے نزدیک مسئلہ اسلام ہے، سیاسی یا فوجی اسلام نہیں۔  ڈیوڈ بروکس کے نزدیک

‘اہم چیز یہ ہے کہ  ایسے لوگوں کو اقتدار سے باہر کر دیا جائے چاہے اس کے لیے  فوجی  بغاوت ہی کا استعمال کیوں نہ کرنا پڑے۔(اصل)   ہدف یہ ہے کہ سیاسی اسلام کو  کمزور کر دیا جائے  چاہے اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے۔ ‘

مصر میں   لبرلوں کے لیے روشنی کے مینار کی حیثیت رکھنے والے البرادعی  نے  کہا ہے کہ انہیں اپنے  مغربی دوستوں کو اس بات پر راضی کرنے کے لیے کافی محنت کرنی پڑی  کہ مصر میں جو کچھ فوج نے کیا وہ انتہائی ضروری تھا۔

حاصل وصول ایک  ہی بات ہے،  الجزائر   اور مصر میں  حکومت سیاسی طریقے سے حاصل کی جائے یا اٖ فغانستان  میں   طالبان کے انقلاب کے ذریعے،  اگر حکومت  نے   ذرا بھی  کوشش کی   کہ اسلام کو  ایک جز و کے طور پر ہی سہی لوگوں کی سیاسی زندگی میں داخل کر دیا جائے  تو وہیں اس کے اوپر  ایک ایسی کاری ضرب لگائی جائے گی کہ  ان کی تحریک دس سال پیچھے جا کھڑی ہو گی-  اگر لوگوں کی اکثریت اسلام چاہ رہی ہے اور حکومت نہیں چاہ رہی تو چاہے   مظالم کے پہاڑ ہی  کیوں نہ توڑ دیے جائیں، جیسے شام میں ہو رہا ہے، لبرلوں کے کانوں پر جوں نہیں رینگے گی۔   ترکی میں جو کچھ ابھی ہو رہا ہے   وہ   اگر  آج سے پانچ سال پہلے ہوتا تو  شاید ترکی میں اردگان حکومت کا بھی  خاتمہ ہو چکا ہوتا۔  ان لوگوں کے خیال سے مذہب کی جگہ سیاست نہیں ہے، حکومت نہیں ہے،  معیشت نہیں ہے،  بلکہ معاشرت بھی نہیں ہے، بس مذہب  ایک انفرادی شے ہے ! اب یہ ان کو کون سمجھائے کہ  ؏ جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔ فرد سے ہی سیاست ہے، فرد سے ہی  حکومت، اسی سے معیشت اور اسی سے معاشرت۔ تو سیدھے سبھاؤ فرد کو ہی کیوں نہیں نکال دیتے  باہر؟

کیا اب بھی کسی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اسلام پسندوں پر عرصہ حیات تنگ کردینے کی آخر وجہ کیا ہے؟ اس چیز کو دیکھنے کے لیے کوئی عقابی نگاہیں نہیں چاہییں کہ مصری فوج نے مرسی سے اقتدار چھیننے سے پہلے ہی  غزہ کی سرنگیں بند کرنے کا کام شروع کر دیا تھا۔  اقتدار میں آنے کے بعد اخوان کے ہمدرد  چار چینل بند کر دیئے گئے۔  الاخوان المسلمون کے دھرنے پر فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں  تیس سے اوپر لوگ شہید اور سو تک زخمی ہو گئے۔  اس پر نہ کوئی جمہوری روایت  پامال ہوئی نہ انسانی حقوق، کیونکہ  جمہوری روایات کے امین  تو صرف سیکولر ہیں، اور انسانی حقوق کے علمبردار صرف لبرل۔ مصر میں تو خیر براہ راست امریکی ( یعنی صیہونی) مفادات پر  زک پڑ رہی تھی  اس لیے وہاں  تو  انگریزی ترکیب کے مطابق یہ  ‘کب؟’ کا معاملہ تھا ‘اگر’ کا نہیں-  لیکن باقی دنیا میں کیا ہو رہا ہے؟   یورپ میں عورتوں کو  زبردستی بے پردہ کیا جا رہا ہے۔  حجاب پہنی ہوئی عورت کو بھری عدالت میں قتل کر دیا جاتا ہے۔  داڑھی والوں کو ائرپورٹ پر  لائن سے نکال کر تلاشی لی جاتی ہے۔  پکڑا جانے والا اگر فیصل شہزاد ہو ( صحیح یا غلط کی  بات نہیں) تو  وہ تمام مسلمانوں کا  نمائندہ ، اسلام دہشت گردوں کا مذہب اور تمام مسلمانوں کے لیے  شرمندہ نظر آنا لازمی۔  لاکھوں کے قتل کا  متحرک  ہٹلر، ہزاروں کے خون کا ذمہ دار سلوبودان میلاسووچ،  درجنوں کو اپنے  دو ہاتھوں سے مارنے والا اینڈرز بریوک  مگر عیسائیوں  کا  نمائندہ نہیں، یہ ان کا ذاتی فعل ہے جس کی  کسی عیسائی کو صفائی پیش کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ پھر ہمارے اپنے معاشروں میں اسلام پسند جس تضحیک کا نشانہ بنتے ہیں وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔  جس نے داڑھی رکھ لی وہ منہ چھپا کر پھر رہا ہے اور جو  رات کو  ڈانس پارٹی سے ہو کے آیا ہے اس  کی فیس بک پروفائل پر likes ہی likes ۔  جہاں باپ  نے کسی دینی اجتماع میں جانا شروع کیا بچوں کے منہ لٹکنے شروع ہو گئے۔  انصار عباسی اور اوریا مقبول جان جیسے  کالم نویس   لبرل طبقہ کی ہنسی کا براہ راست نشانہ بنتے ہیں۔

  یہ کیا ہے؟  یہ  دراصل وہ فطری ترتیب  ہے جس پر اللہ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔  دنیا میں ازل سے ابد تک  درحقیقت صرف دو ہی گروہ ہیں۔  ایک کا نام حزب اللہ، دوسرا حزب الشیاطین۔  فی الوقت  دنیا   چاہے یا  نہ چاہے اپنے آپ کو ان دو  گروہوں  میں تیزی سے تقسیم کر رہی ہے۔   جس کو ہم grey area  کہتے ہیں وہ  اب بہت کم رہ گیا ہے اور اس طرح کے اقدامات کر کے  یہ لادین طبقہ چاہ رہا ہے کہ  یہ تقسیم  بالکل واضح ہو جائے۔  اپنی دانست میں وہ  اپنی دنیا پکی کر رہے ہیں مگر در حقیقت اس سے بڑا خسارے کا سودا  کوئی انسان نہیں کر سکتا۔  و انتم لا تشعرون ! لیکن تم تو  سمجھ ہی نہیں رکھتے! کسی سیکولر سے مگر اور توقع کیا کی جا سکتی ہے، اس کا ایمان دنیا میں ہے وہ اپنے ایمان  کے مطابق کام کر رہا ہے۔  مسئلہ تو ہمارا ہے، ان لوگوں کا جن کا دعوی ٰ تو یہ ہے کہ  ایمان ہمارا اللہ پر ہے، مگر عمل   اس دعوے کی نفی کرتا جا رہا ہے۔ عشق رسولؐ کے مدعی بھی ہیں ، نعت خواں، حافظ بھی ہیں مگر صبح اٹھتے ہی  سب سے پہلے اپنے چہرے سے سنت نبویؐ  کو کھرچ کر  کچھ تو کچرے میں ڈال دیتے ہیں اور کچھ سیدھا گٹر میں بہا دیتے ہیں۔  خواتین صحابیات  مبشرات   ؓ  کی مثالیں  دیتی ہیں مگر انہی کے اصرار پر مرد حرام کماتے ہیں۔  سود پر ہماری معیشت کی بنیاد ہی نہیں ہے، یہ اس  کی جان ہے، ہمارے  نئے نویلے   وزیر خزانہ صاحب نے  تو اس بجٹ میں  انٹرسٹ کا لفظ ہی استعمال نہیں کیا، سیدھا شرح سود کی بات کی۔  تو ہم تو خود اپنے عمل سے ثابت کر رہے ہیں  کہ اسلام فی زمانہ کوئی قابل عمل  چیز نہیں، نہ  انفرادی زندگی میں ، نہ اجتماعی زندگی میں۔ تو   اگر ڈیوڈ بروکس یہ کہہ دیتا ہے کہ  ‘نا اہلی  دراصل بنیاد پرست اسلام  کے   دانشورانہ  DNA  میں  رچی بسی ہوئی ہے’ تو  اس نے  کیا غلط کہہ  دیا ؟

مصر کے حالیہ  واقعات نے  اگر کم از کم بھی یہ کر دیا کہ ہمارے  لوگوں کی  آنکھوں سے   غفلت  کی پٹی کھول دی تو یہ بہت بڑی بات ہو گی۔یہ بات کہ شدت پسندی دراصل اسلام پسند نہیں بلکہ سیکولر اور لبرل طبقہ کرتا ہے، اگر سمجھ آ گئی تو یہ ایک نہایت بڑی بات ہوگی۔ہمارا اشارہ ان لوگوں کی طرف نہیں ہے جو  صرف دینی مزاج کے لوگ نہیں یا جو نماز نہیں پڑھتے یا روزہ نہیں رکھتے۔ ہمارا اشارہ ان لوگوں کی طرف ہے جن کو ان سب کے ساتھ ساتھ   یہ  بھی برا لگتا ہے کہ  ہمارے کھلاڑی ‘ان شاء اللہ ‘ کیوں کہتے ہیں۔  ہمارے لوگ اب اللہ حافظ کیوں کہتے ہیں۔  رمضان کو Ramadan کیوں بولا جا رہا ہے۔   ان میں سے اکثر وہ لوگ ہیں جو اپنے ‘حق’ کو پانے کے لیے جھوٹ کا سہارا لینے میں ذرا عار محسوس نہیں کرتے۔  یہی تو ڈیوڈ بروکس نے کہا ہے، ‘چاہے کسی طریقہ سے بھی بس  سیاسی اسلام کو  ہرا دو’۔ چاہیں تو ایک  جھوٹی ویڈیو چلا کر سوات کے امن  معاہدے کو پارہ پارہ کر دیں۔ چاہیں تو لال مسجد کے خلاف واویلا مچا کر وہاں آپریشن کرا دیں اور پھر ٹسوے بہائیں کہ یہ کیا کر دیا؟  چاہیں تو  صوفی محمد کے خلاف اسمبلی کے فرش پر چلا چلا کر ہاتھ ہلا ہلا کر   تقریریں کریں ۔  چاہیں تو فحاشی کے  بے محابا پھیلاؤ سے صاف مکر جائیں اور اسلام پسندوں پر ثقافتی دیوالیہ پن کی تہمت چسپاں کر دیں۔ یا  جیسے مصر میں ہوا کہ ایک  منتخب  جمہوری حکومت کو  اٹھا کر باہر پھینک دیں اور  اپنے  پیارے البرادعی کو   انتہائی  ‘جمہوری’ طریقے سے نگران حکومت کا حصہ بنوا دیں۔  یقین کریں ، ایسا لگتا ہے کہ یہ دن کو دن  اور رات کو رات بولتے ہیں تو  اس کے پیچھے ان کا مفاد ہوتا ہے۔

اس  سارے  منظر نامہ سے اگر ہم نے اتنا ہی سمجھ لیا تو یہ بھی کوئی معمولی فائدہ نہ ہو گا کہ  ان کی آزادی ہماری آزادی نہیں۔  ان کی شام  ہماری  شام نہیں ، اور ان کی سحر ،ہماری سحر نہیں ۔

 فاعتبرو۱ یا اولی الابصار۔

July 4, 2013

Muqaddar Ka Sikandar


وہ 1949 ء میں ایک متمول کشمیری گھرانے میں پیدا ہوا ۔ اس کا باپ ایک تاجر اور صنعتکار تھا ۔ 70 کی دہائی میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت نے صنعتوں کو قومیانے کا فیصلہ کیا تو اس کے باپ کے کارخانے کو بھی قومی تحویل میں لے لیا گیا ۔ جس کے نتیجے میں اس نے سیاست میں کودنے کا فیصلہ کیا اور پاکستان مسلم لیگ کے جھنڈے تلے اپنی سیاست کا آغاز کیا ۔ قسمت اور بڑے صوبے کے اس وقت کے گورنر جنرل غلام جیلانی خان کی مہربانی سے وہ 1980 ء میں اسی صوبے کا وزیر خزانہ بن گیا ۔ جبکہ اگلے پانچ برسوں میں وہ اسی صوبے کا وزیر اعلیٰ بن گیا۔ اسی دوران وہ اپنا خاندانی کارخانہ بھی دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ۔ آج اس کا خاندان فولاد کی ایک عظیم الشان انڈسٹری کا مالک ہے ۔ نیز اس خاندان نے زراعت ، ٹرانسپورٹ اور شوگر ملز میں بھی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ 

تاریخ کی کتابوں کو کھنگالا جائے تو شاید ہی کوئی ایسی دوسری مثال ملے کہ قسمت کسی پر اس درجہ مہربان ہوئی ہو جتنی اس پر مہربان ہوئی ۔ اس کے کاروبار پر نظر ڈالیں تو حیرت ہوتی ہے کہ آج اس کی صنعتی ایمپائر دنیا کے کئی ممالک تک پھیل چکی ہے۔ اس کے سیاسی کیریر جائزہ لیں تو تعجب ہوتا ہے کہ وہ محض31 برس کی عمر میں ملک کے سب سے بڑے صوبے کا وزیر خزانہ، پھر 33 برس کی عمر میں اسی صوبے کا وزیر اعلیٰ ، اور پھر صرف 41 برس کی عمر میں ملک کا وزیر اعظم بن چکا تھا۔ اتنی کم عمری میں کسی کو ترقی کی اتنی منازل طے کرتے ہوئے اس زمین آسمان نے کم کم ہی دیکھا ہو گا ۔ اس وقت کے صدر نے اس کی حکومت کو برطرف کی تو عدالتی حکم اس کے حق میں آ گیا ۔ یہ اور بات کہ جلد یا بدیر اسے بہرحال وزیراعظم کا عہدہ چھوڑنا ہی پڑا۔

ایک مختصر وقفے کے بعد قسمت نےپھر انگڑائی لی اور اس شان سے کہ اس کی جماعت نے دو تہائی اکثریت سے کامیابی حاصل کی ۔ اس مرتبہ پارلیمنٹ میں اپنی پارٹی کی سادہ اکثریت کے باعث وہ ایک طاقتور وزیر اعظم تھا۔ وہ چاہتا تو کیا کچھ نہیں کر سکتا تھا! وہ چاہتا تو ملکی تاریخ کا دھارا موڑ سکتا تھا۔ وہ چاہتا تو ملک کا مقدر سنوار سکتا تھا۔ وہ چاہتا تو ملک کو حقیقی فلاحی ریاست بنا کر عوام کے دلوں پر حکومت کر سکتا تھا ۔ وہ چاہتا تو ملکی دولت لوٹنے والوں کو عبرت کا نشان بنا سکتا تھا۔ وہ چاہتا تو ملک میں اسلامی شریعت نافذ کر سکتا تھا۔ وہ چاہتا تو ملک میں عدل و انصاف کا اسلامی نظام نافذ کر سکتا تھا۔ وہ چاہتا تو ملک سے سودی نظام کا خاتمہ کر سکتا تھا ۔ وہ چاہتا تو یہ سب کر کے اپنا حشر انبیاء علیہم السلام کے ساتھ کروا سکتا تھا۔۔۔ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!

تاہم اس کی خوش قسمتی کے قصے ابھی ختم نہیں ہوئے۔ مقدر نے اسے ایک اور سنہرا موقع فراہم کیا ۔ ہمسایہ ملک بھارت نے 1998 ء میں ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کی سالمیت کو چیلنج کیا تو مئی 1998 ء کو اس کی حکومت کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ اس کے ہاتھوں پاکستان اسلامی دنیا کی پہلی اور کرہ ارض کی ساتویں جوہری قوت بن گیا۔ قومی تاریخ کا یہ وہ یادگار ترین لمحہ تھا کہ جب نہ صرف یہ کہ پوری پاکستانی قوم ایک سرشاری کے عالم میں اس کی پشت پر کھڑی تھی بلکہ پورا عالم اسلام بھی اس پر فخر کر رہا تھا ۔ لیکن پھر اچانک ایک احمقانہ فیصلے کے ذریعے فارن کرنسی اکاؤنٹس پر پابندی لگا دی گئی جس کے نتیجے میں قومی یک جہتی کی ساری فضا سبو تاژ ہو گئی ۔ اس فیصلے کو ملکی تاریخ کی سب سے بڑی ڈکیتی بھی کہا جاتا ہے۔ صرف عوام کی دولت ہی نہیں بلکہ عوام کے جذبات بھی لوٹ لئے گئے ۔

لیکن وہ اس سب سے بے پروا محض اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط سے مضبوط تر کرنے کی کوششوں میں مصروف نظر آیا۔ اس جد و جہد میں وہ ان آہنی دیواروں سے ٹکرا بیٹھا جن سے ٹکرانے کا انجام سوائے تباہی کے کچھ نہیں ہوتا ۔سو اس کی حکومت کی بساط لپیٹ دی گئی اور ملک ایک بار پھر آمریت کے شکنجے میں پھنس گیا۔ جیل کی کال کوٹھری اس کا مقدر بنی ۔ وہ عر ش سے گر کر پاتال میں پہنچ چکا تھا۔ اس کے سر پر موت کے سائے منڈلا رہے تھے۔لیکن قسمت نے ابھی بھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑا تھا۔ سو یہ خطرہ بھی کسی نہ کسی طور ٹلا اور عالمی دباؤ کے نتیجے میں آمر وقت نے اسے جلا وطن کرنے کا حکم دیا ۔ وہ سرزمین حجاز مقدس جا پہنچا جہاں وہ شاہی مہمان کی حیثیت سے جدہ کے ایک عالیشان محل میں قیام پزیر رہا ۔

پھر کسی نہ کسی طرح وہ وطن واپس آنے میں کامیاب ہوا ۔ اور آج وہ ایک بار پھر ملک کا وزیر اعظم بن چکا ہے۔ آج پھر پارلیمنٹ میں اسے عددی اکثریت حاصل ہے۔ آج ایک بار پھر اس کے پاس موقع ہے کہ وہ چاہے تو بہت کچھ کر سکتا ہے۔ اسے کسی بھی آئینی ترمیم کے لئے کسی دوسری پارٹی کی حمایت درکار نہیں۔ اس کی سب سے بڑی سیاسی حریف ماری جا چکی ہے جبکہ اس کی حریف سیاسی جماعت آخری ہچکیاں لیتی نظر آ رہی ہے۔ وہ الیکشن سے پہلے بڑے بڑے دعوے کر رہا تھا کہ ہم اقتدار میں آ کر یہ کریں گے ، اور وہ کریں گے۔ اسے ملک کی سسکتی بلکتی عوام نے نجات دہندہ سمجھ کر بھاری اکثریت سے منتخب کیا لیکن آج اس کی حکومت کے ابتدائی فیصلے دیکھ کر واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ اس نے ماضی کے نشیب و فراز سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔

اس نے اقتدار سنبھالتے ہی اپنے سابقہ ادوار حکومت کی طرح سرکاری ملازمتوں پر پابندی کا حکم صادر کر دیا ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ بھی خارج از امکان قرار دیا جا چکا ہے۔ ملکی معیشت کی بحالی کے لئے لٹیروں کا بے لاگ احتساب کر کے لوٹی ہوئی قومی دولت کو واپس لانے کے بجائے آئی ایم ایف سے مزید سودی قرضے لینے کو ناگزیر قرار دیا جا چکا ہے ۔ بے چہرہ جنگ اور ڈرون حملوں سے متعلق حکومتی پالیسیز بھی کمزوری اور بودہ پن کا شکار نظر آ رہی ہیں۔

مہنگائی اور افراط زر کی ماری عوام بجا طور پر کسی ریلیف کی آس لئے اس کی طرف دیکھ رہی تھی لیکن اس کے وزیر خزانہ کے پیش کردہ بجٹ کے نتیجے میں غریب آدمی کے تن پر موجود آخری چیتھڑہ اور منہ سے آخری نوالہ بھی چھین لیا گیا ہے۔ سابقہ حکومت کے دور میں کھربوں روپے کی کرپشن ہوئی ۔ 82 ارب روپے کا کلیم تو اکیلے توقیر صادق پر ہی نکلتا ہے۔ ایسے کتنے ہی توقیر صادق ملکی خزانے پر ہاتھ صاف کرتے رہے ۔ لیکن انہیں پکڑ کر ان سے غبن کردہ ملکی دولت وصول کرنے کی بجائے وہ ایک بار پھر عوام ہی سے قربانی کا طلبگار ہے۔ جنرل سیلز ٹیکس سولہ فیصد سے بڑھا کر سترہ فیصد کر دیا گیا ہے ۔ موبائل فون پر ٹیکسز میں اس قدر اضافہ کر دیا گیا ہے کہ آج موبائل فون صارفین کو 100 روپے کے کارڈ پر 41.50 روپے ٹیکس دینا ہو گا گویا 41.50 فیصد ٹیکس۔ دنیا میں شاید ہی کسی ملک میں اس شرح سے ٹیکس نافذ کیا گیا ہو۔ سی این جی کی قیمتوں میں بھی رمضان المبارک کے بعد ہوشربا اضافہ کی شنید ہے جو کہ ذرائع کے مطابق 80 فیصد تک ہو سکتا ہے ۔ یہ بھی یقیناً ایک عالمی ریکارڈ ہی ہو گا ۔ حد تو یہ ہے کہ عازمین حج پر بھی فی کس پانچ ہزار روپے ٹیکس لگا دیا ہے ۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ یہ ٹیکس حجاج کرام پر نہیں بلکہ حج ٹور آپریٹر پر لگایا گیا ہے ، لیکن ظاہر ہے ٹور آپریٹر وصول تو حاجیوں سے ہی کرے گا ، اپنے پاس سے تو دینے سے رہا۔ کاش کبھی کوئی غیر جانبدار ادارہ اس بات کا جائزہ لے اور بتائے کہ پاکستان کی عوام بالخصوص ملازمت پیشہ طبقہ (جن کی تنخواہوں سے انکم ٹیکس پیشگی ہی وصول کر لیا جاتا ہے) انکم ٹیکس، جی ایس ٹی ، ایکسائز ڈیوٹی ، پراپرٹی ٹیکس ، موٹر وہیکل ٹیکس ، ود ہولڈنگ ٹیکس وغیرہ کی مدات میں اپنی آمدنی کا کل کتنا فیصد حصہ بطور ٹیکس ادا کر رہا ہے؟

ملک کی اسلام پسند عوام اور دینی حلقے اس سے بجا طور پر توقع کر رہے ہیں کہ وہ ملکی معیشت کو سودی نظام سے پاک کرنے کے لئے اقدامات کرے… ملک میں اسلامی نظام عدل رائج کرے … اسلامی شریعت کے نفاذ کی عملی کوشش کرے … ملک کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کی سعی کرے… لیکن ایسی “خرافات ” اس کی ترجیحات میں شامل کہاں؟

اتنے مواقع جس شخص کو ملیں اسے مقدر کا سکندر کہا جاتا ہے ۔۔۔  معلوم نہیں کہ اتنے مواقع ملنے کے بعد بھی ملک و قوم کے لئے کچھ نہ کر پانے والے شخص کو کیا کہا جائے گا؟90 کی دہائی میں جب وہ پاکستان کا وزیر اعظم تھا تو ملائیشیا میں مہاتیر محمد اس کا ہم عصر تھا۔ آج ترکی کا رجب طیب اردگان اس کے معاصرین میں شامل ہے۔ دونوں نے اپنے اپنے وطن کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ دونوں نے ملکی و عالمی سطح پر کتنی نیک نامی کمائی ۔

آہ ارضِ وطن …. تیرا مقدر !

واہ سکندر… تیرا مقدر!

Photo credit: World Economic Forum / Foter / CC BY-NC-SA

June 28, 2013

بُھنگانہ، ابابیل اور ڈرون


اندلس کے طوائف الملوک میں وہ پہلی حکومت جس نے باقاعدہ عیسائی اقوام سے دوسرے مسلمانوں کے خلاف مدد مانگی وہ کوئی اور نہیں قرطبہ  کی حکومت تھی۔  خلافت اندلس کا دارالخلافہ قرطبہ، جہاں سینکڑوں سالوں سے کسی نے کسی  غیر مسلم کو  تلوار سونت کر چلتے نہیں دیکھا تھا، وہاں  اب عیسائی فوجی نام نہاد مسلمان حکمرانوں کے جنگی عزائم کو آگے بڑھانے کے لیے  کرائے کے فوجیوں کے طور پر لڑ رہے تھے! اندلس میں  اموی خلافت  کمزور  ہوئی تو  فوج کے مختلف سرداروں نے اپنے اپنے علاقوں میں اپنی حکومت کا اعلان کردیا۔  یہ علاقے  ‘طائفہ’ کہلاتے تھے اور ان کے بادشاہ  ، ‘ملک الطائفہ’، اکثر و بیشتر صرف اپنے علاقے بڑھانے کے چکر میں  رہتے تھے۔   اتحاد امت اور اتحاد بین المسلمین جیسے الفاظ ظاہر ہے توسیع پسندی  اور ہوس ملک گیری کے ماروں کے سامنے نہایت بودے معلوم ہوتے ہیں۔  تو  ان بادشاہوں کی تلواریں بھی آپس میں ہی چلتی تھیں۔ اور اس میں ان کو مدد ملتی تھی کاسٹائل اور دوسری عیسائی ریاستوں سے۔  یہ مدد فوجیوں کی صورت بھی ہوتی تھی، اور کبھی کبھار براہ  راست مسلمان بادشاہ کی طرف سے  عیسائی فوجیں ہی حملہ آور ہو جاتی تھیں۔ ‘تقسیم کرو اور حکومت کرو’ کی یہ اندلسی مثال تھی۔  ان خدمات کے عوض آئیبیریا کے عیسائیوں کو مال، دولت، جائداد  یا جو وہ مانگیں، دیا جاتا تھا۔  نتیجہ یہ کہ عیسائی طاقت بڑھتے بڑھتے اتنی ہو گئی کہ ان نا عاقبت اندیش حکمرانوں کو سانس لینی دوبھر ہو گئی۔   یہ آج سے ٹھیک ایک ہزار سال پہلے کی بات ہے۔

آج کا حال دیکھیں۔ پاکستان کے شمالی علاقوں ، جنہیں نہ جانے کیوں پہلے بھی  ‘علاقہ غیر’  ہی کہا جاتا  تھا، میں ایک جنگ ہو رہی ہے۔  ‘ہماری جنگ’ !۔ کہنے کو پاکستان کی سرزمین کے دشمن اس علاقے میں چھپے بیٹھے ہیں۔  وہ دشمن جو عام  آبادی میں ایسے گھل مل گئے ہیں کہ وہاں ان کی شادیاں بھی ہوئی ہوئی ہیں اور اولاد بھی۔   ایک ایسا علاقہ جس میں پاکستان کے دوسرے علاقوں سے کوئی نہیں جا سکتا اور وہاں سے پاکستان کے دوسرے علاقوں میں کوئی نہیں جا سکتا۔  بیچ میں اتنی چوکیاں اور اتنے پہرے ہیں کہ سفر کا انجام اکثر و بیشتر ناکامی ہی ہوتا ہے۔ چنانچہ وہاں سے کسی خبر کا آجانا بجائے خود ایک عجوبہ  ہے کجا یہ کہ اس خبر کی تصدیق بھی ہو جائے۔ ایسے میں وہاں پر  فضائی حملے جاری ہیں۔ مقصد ان حملوں کا یہ ہے کہ ‘دہشت گردوں’ کو مار دیا جائے۔  یہ حملے کون کر  رہا ہے، کیوں کر رہا ہے اور کیا یہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو رہے ہیں ۔ یہ سوال کر لینا جتنا آسان ہے اس کا جواب تلاش کرنا اتنا ہی مشکل۔

Drone victims aren't all military aged

2004 میں ڈامہ ڈولہ میں ایک  میزائل  حملے میں  ‘ ملا نیک محمد ‘ کا انتقال ہو گیا۔  اس وقت کسی کی کچھ سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ یہ میزائل آیا کہاں سے۔  مگر ہمارے صدر پرویز صاحب نے  کمال پھرتی سے اس کی ذمہ داری  اپنے ادارے کی طرف سے قبول کرتے ہوئے  کہا کہ یہ ہم نے  کیا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ ہم نے ایک ایسے شخص کو کیوں مار دیا جو  بعد میں ملنے والی اطلاعات کے مطابق ریاست سے باقاعدہ مذاکرات پر آمادہ تھا،  یہ تفصیلات کہ حملہ ہوا کیسے اس کہانی میں ہی کافی جھول تھے۔  بعد  ازاں  جب جب اس طرح کے حملے ہوتے رہے تو  اسی طرح وہ اور ان کے کارندے یہ ذمہ داریاں قبول کرتے رہے۔  رفتہ رفتہ بات کھلنا شروع ہوئی کہ یہ حملے  دراصل امریکی  ڈرون جاسوس طیارےکرتے ہیں۔  یہ  ڈرون  اول اول تو تھوڑے عرصے کے لیے نظر آتے تھے۔ مگر اب یہ    پورا دن  وزیرستان کے آسمان پر موجود رہتے ہیں۔  ان طیاروں سے  ایک مہینے میں اوسطاً  چھ سے سات حملے ہوتے ہیں۔ ان حملوں میں مرنے والے شہریوں  کے اعداد و شمار میں اتنا فرق ہے کہ   سرکاری شمار  دس سے کم اور  غیر سرکاری  کم و بیش ایک ہزار ہے۔ وجہ اس فرق کی کیا ہے یہ جاننے کے لیے دیکھیئے Living  Under Drones (livingunderdrones.com)  نامی دستاویز سے کچھ معلومات۔

یہ دستاویز  Stanford اور NY University  کے  اشتراک سے بنائی گئی ہے۔  قریباً نو ماہ کی ریسرچ اور درجنوں متاثرین سے  گفتگو  کی بنیاد پر بنائی گئی یہ رپورٹ  دراصل ڈرون  کے استعمال کے انسانی نفسیات پر پڑنے والے اثرات کو اجاگر کرنے کی ایک کوشش ہے۔  اسی  ضمن میں  امریکی اور پاکستانی دونوں طرح کے حکومتی دعوؤں کی بھی قلعی کھول دی گئی ہے۔

وزیرستان میں ڈرون کوابابیل بھی کہتے ہیں مگر زیادہ تر  ‘بُھنگانہ’ کہا جاتا ہے، ایک ایسی چیز جو مکھی جیسے بھنبھناتی رہتی ہے۔ وزیرستان میں اس وقت یہ بھنبھناہٹ لوگوں کی زندگیوں کا حصہ بن گئی ہے۔  وہ سوتے ہیں تو سر پر ڈرون کی آواز  آتی ہے، بازار میں ہوتے ہیں تو   ‘بُھنگانہ’ صاف نظر آتا ہے۔ ایک وقت میں چھ چھ ڈرون فضا میں نظر آرہے ہوتے ہیں۔ یہ بذات خود ایک ذہنی پریشانی کا باعث ہے   لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ ڈرون کبھی بھی آگ اگل سکتے ہیں۔ اس کا کوئی مقام، وقت، وجہ یا خاص ہدف نہیں ہے۔

17 مارچ 2011، صبح  تقریباً دس بجے کے قریب  دتہ خیل کے علاقے میں ایک قبائلی جرگہ، جو کہ قبائلی زندگی کا سب سے اہم ادارہ ہے، جاری تھا۔ قریباً چالیس سے کچھ اوپر لوگ  وہاں دو گروہوں میں صلح کرانے بیٹھے تھے، جرگہ کا مقامی انتطامیہ کو دس دن پہلے سے پتہ تھا چناچہ قبائلی بڑے، ملک، خاصہ دار یعنی حکومتی ادارے کے نمائندے بھی موجود تھے جو اس مجمع کے  پرامن ہونے کے لیے ایک  سرکاری سند تھی ۔  کرومائٹ کی کان کا یہ معاملہ کچھ  گرما گرمی کی طرف تھا کہ  اچانک ایک تیز سرسراہٹ سی سنائی دی  اور اس کے بعد ایک زور دار دھماکہ ہوا۔  عینی شاہدین کے مطابق فضا میں موجود ڈرون نے ایک میزائل فائر کیا تھا۔ اس حملے میں کوئی  42 لوگ مارے گئے اور 14 زخمی۔  مرنے والے اکثر لوگوں کے بارے میں یہ مصدقہ  اطلاع ہے کہ ان کا کوئی تعلق کسی  دہشت گرد تنظیم سے نہیں تھا۔ یعنی وہ عام شہری تھے۔ ایک قبائلی  سردار   داؤد خان کا بیٹا ، نور خان،  سانحے کے وقت  پانچ گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ وہ واپس آیا تو اپنے  باپ کا  کفن میں لپٹا، جلا ہوا جسم   پایا۔ داؤد خان اس علاقے کا   ایک بڑا سردار تھا۔ اپنے علاقے والوں کے ساتھ ساتھ  گھر والوں کا  بھی سہارا تھا۔  کچھ یہی احوال  حاجی ملک بابت کا تھا جن کا اس ڈرون حملے میں انتقال ہوا۔ ان کا بیٹا خلیل خان  بتاتا ہے کہ مرنے والے کئی  قبائلی بڑوں میں سے پندرہ  تو صرف اسی کے  وزیری قبیلے سے تھے۔

اسی طرح 15 جون 2011 کو  امریکی ڈرون طیارے نے ایک گاڑی  ، جو کہ میرانشاہ اور سرکوٹ کے بیچ میں سفر کر رہی تھی، پر تقریباً چھ میزائل داغے اور پانچ لوگوں کو مار دیا۔  The bureau of investigative journalism کے مطابق پانچوں کے پانچوں لوگوں کو بعد میں  نام سے شناخت کیا گیا اور وہ پانچوں بھی  عام شہری تھے۔  کون لوگ تھے وہ؟ ایک  فارمیسی والا  عتیق الرحمان اور ایک اس کا طالبعلم ملازم ارشاد، ایک آٹو پارٹس کا بیوپاری عمر، ایک واپڈا کا ڈرائیور اکرم اور  اس کا  طالبعلم کزن شیرزادہ۔ یہ ہیں وہ ‘دہشت گرد ‘جن  کو مارنے کے لیے  چھ  Hellfire میزائل داغے گئے اور جب  عمر خان نے گاڑی سے باہر چھلانگ لگا دی تو آخری میزائل  نے اس کو بھی   قتل کر ڈالا۔

یہ صرف دو واقعات ہیں اور ان میں مرنے والے شہریوں کی تعداد پچاس تک پہنچ  جاتی ہے۔  ایک مہینے میں چھ حملے، ایک سال میں درجنوں  حملے اور  ہر حملے میں کئی ہلاکتیں۔کچھ عرصہ پہلے کی اطلاعات کے مطابق مرنے والے صرف بچوں ہی کی تعداد  178  ہے۔ اس کے باوجود جب  امریکی وزارت دفاع یہ کہتی ہے کہ مرنے والے شہریوں کی تعداد دس سے بھی کم ہے تو  پہلا سوال لازماً یہی ذہن میں آتا ہے کہ یہ کوئی اور گنتی گن رہے ہیں کیا؟ جواب اس کا ہے جی ہاں۔  امریکی وزارت دفاع کے مطابق کسی بھی حملے میں مارا جانے والا  ہر وہ مرد جو کہ جنگ لڑ سکتا ہے وہ جنجگو کی فہرست میں آئے گا ، الا یہ کہ اس کی موت کے بعد اس بات کا ٹھوس ثبوت مل جائے کہ  وہ ایک شہری تھا۔  امریکی حکومت کی طرف سے آج تک کوئی ایسی  کوشش نہیں کی گئی جو  ان حملوں میں مرنے والوں کے بارے میں  یہ  پتہ  لگانے کے بارے میں ہو کہ آیا وہ واقعی دہشت گرد تھے بھی کہ نہیں۔ اور ایسا کرنا سیاسی طور پر اوبامہ  کی صدارت کے لیے خودکشی کے مترادف ہو گا۔

باراک اوبامہ نے اس بات کو کبھی چھپانے کی کوشش نہیں کی کہ وہ ڈرون کو  زمینی  یا فضائی فوج پر زیادہ ترجیح  دیتا ہے۔  اس کی وجہ ایک تو یہ ہے کہ ڈرون اگر گر بھی گیا، اور گرتے ہی رہتے ہیں، توبھی  کسی فوجی کا قید میں چلا جانا یا مر جانا  اس سے کہیں  زیادہ عوامی ردعمل  کا موجب ہو گا۔ دوسری  بات یہ کہ گوانتانامو  جیل کا معاملہ بھی باراک اوبامہ کے لیے سانپ کے منہ میں چھچھوندر جیسا ہو گیا ہے۔ اس لیے مزید قیدی بنانے سے بہتر ہے کہ ان کو ٹھکانے لگا دیا جائے۔  لیکن  یہ سب تو ظاہر ہے  کہ  پوشیدہ وجوہات ہیں۔ اصل وجہ جو  اوبامہ، اس کی انتظامیہ  بالخصوص اس ڈرون جنگ کا  کرتا دھرتا  جان برینن  وغیرہ بتاتے ہیں وہ یہ ہے کہ  ‘ہمارے ڈرون طیارے دہشت گرد اور عام شہری میں فرق کرنا جانتے ہیں’ یا ‘ہم ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ ڈرون حملوں میں   عام شہریوں کا نقصان نہ ہو’ یا وہ جملہ  جو سب سے زیادہ  کہا جاتا ہے کہ ‘ہمارے  میزائل Pinpoint Precision پر کام کرتے ہیں’۔

اس    نشانہ بازی کی سوئی کی نوک  کے برابر  درستگی کے بارے میں   IISI  نامی کمپنی نے  ہرجانے کے دعویٰ میں  عدالت  کو   بتایا کہ    ” Netezza  کمپنی نے ہمارا سوفٹوئیر  Geospatialغیر قانونی طریقے سے اور عجلت میں   reverse engineer کر کے سی آئی اے کو بیچا اور انہوں نے یہ جاننے کے باوجود کہ یہ  سوفٹوئیر کئی میٹر تک غلط  جگہ بتا تا ہے، اسے خرید لیا”۔  چھوٹی سی گاڑی پر چھ  Hellfire میزائل مارنے کی ضرورت ایسے ہی نہیں پڑتی۔ اس کے  علاوہ ٹریکنگ چِپس بھی استعمال کی جاتی ہیں جو  زمین پر موجود   امریکہ کے خریدے ہوئے لوگ  مشکوک لوگوں کے  ٹھکانوں پر ڈال دیتے ہیں اور وہ چِپ  ڈرون   کی رہنمائی کرتی ہے۔  اپریل 2009 میں 19 سالہ  حبیب الرحمان  کو   مبینہ  طور  پر TTPنے  گولی  مار دی۔  قتل ہونے سے پہلے اپنے ویڈیو پیغام میں حبیب نے کہا کہ اسے  یہ پتہ نہیں تھا کہ یہ CIAکا کام ہے، اسے تو چپس پھینکنے کے 122 ڈالر دئیے گئے تھے اور کہا گیا تھا کہ اگر تم کسی عرب گھر میں یہ چپ ڈالنے میں  کامیاب ہو گئے تو  بارہ ہزار  ڈالر  ملیں گے۔  اس نے کہا کہ میں نے اندھا دھند وہ چپس ادھر ادھر پھینکنا شروع کر دیں ، میں جانتا تھا کہ لوگ میری وجہ سے مر رہے ہیں مگر مجھے پیسے چاہیے تھے”۔ تو یہ ہے  Pinpoint precision کی روداد!

شروع شروع میں یہ ڈرون حملے  کسی ایک شخص معین پر ہوتے تھے۔  مثلاً  بش انتظامیہ کے دور میں نیک محمد   پر جو حملہ ہوا تھا وہ   Personality strike تھا۔  باراک اوبامہ نے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی یہ بات واضح کر دی تھی کہ     وہ  اور اس کی ٹیم ڈرون حملوں کو مزید آگے بڑھائیں گے۔ یہ پروگرام  ایسے آگے  بڑھا کہ اب سی آئی اے کے یہ ڈرون اڑانے والے اگر  کہیں بھی محسوس کریں کہ کوئی مشکوک سرگرمی ہو رہی ہے تو   اکثر و بیشتر  ان کو  حملہ کرنے کے لیے صدر سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔  جرگہ پر حملہ اسی کا شاخسانہ ہے،  اکرم خان کی گاڑی اسی لیے تباہ کی گئی، جنازوں ،شادیوں  اور دوسرے اجتماعات  پر  بھی حملے اسی Signature Strike کے زمرے میں آتے ہیں۔ یعنی  اگر کوئی صورتحال کسی پہلے سے متعین   Signature پر پورا اتر رہی ہے تو  ڈرون اڑانے والا حملہ کرنے کا مجاز ہے۔  وہ کیا قواعد ہیں جن کی بنیادپر یہ فیصلہ ہوتا ہے ، یہ ایک راز ہے۔   اب تو یہ بات مذاقاً کہی جاتی ہے کہ جہاں  CIA کو تین لوگ اچھل کود کرتے نظر آتے ہیں وہ ایک  Hellfire داغ دیتے ہیں۔

ڈرون طیارے بغیر پائلٹ کے نہیں اڑتے، بس ان کے پائلٹ  طیارہ میں نہیں بیٹھتے۔  وہ  ہزاروں میل دور نیواڈا میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ کل کے ایف سولہ اڑانے والے آج Predator اور Reaper اڑا رہے ہیں۔ ایک بڑے سے کنٹینر میں ایک ٹیم بیٹھی ہوتی ہے جس میں سے دو پائلٹ ہوتے ہیں۔  ان کے سامنے بالکل جہاز ہی کے انداز میں مختلف آلات لگے ہوتے ہیں۔ دو سکرینوں پر  جہاز کا بیرونی اور نیچے کا منظر دکھائی دیتا ہے۔  بالکل ایک ویڈیو گیم کا سا سماں ہوتا ہے۔  F-16 کی کمر توڑ پرواز  سے یہ  پرواز اگر ویسے ہی  ‘گھر جیسا آرام ‘نہیں تھا تو ڈرون اڑانے والوں کے لیے اس قتل کی سنگینی کو کم سے کم رکھنے کے لیے   اس قتل کو Bug splat یعنی مکھی مارنا کہا جاتا ہے۔  یعنی  مرنے والا جو بھی ہو  کم از کم انسان کہلانے کے لائق نہیں۔  اوبامہ کی اس جنگ میں  حملوں  کی زیادتی کی وجہ سے پائلٹس کی اتنی کمی ہو گئی ہے کہ اب  امریکی فضائیہ اپنے کیڈٹس سے بھی یہ کام لے گی۔ اس پر  طرہ یہ کہ اب  ان کی حوصلہ افزائی کے لیے  ان کو بہادری کے تمغے  بھی دئیے جا نے کا  پروگرام رو بہ عمل ہے۔

اس سارے معاملے میں  پاکستان اور اس کے عوام کا کیا کردار ہے؟  ہم نے مضمون کے آغاز میں ملوک الطوائف  کا  ذکر کیا تھا۔   پاکستان  کی حکومت کا کردار  اس معاملے میں ایسا ہی منافقانہ ہے۔   آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل کے مصداق اس علاقے سے ویسے بھی خبریں نہیں آتیں، اوپر سے ہمارے سابق وزیر اعظم صاحب وکی لیکس کے مطابق یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ ‘آپ اپنا کام جاری رکھیں گے، ہم پارلیمان میں آواز اٹھائیں گے اور پھر خاموش ہو جائیں گے”۔اپنے ملک کی عوام کو اس طرح درندوں کے حوالے کرتے کم ہی دیکھا گیا ہے۔ وزیرستان کی عوام کے آگے CIA کا کنواں اور پیچھے TTP کی کھائی ہے۔  وہ اپنے مخصوص محل وقوع  کی وجہ سے اس وقت  زمین کی پشت پر بد ترین مصیبت  میں ہیں۔ اور اس صورتحال میں انہیں دھکیلنے والے کوئی اور نہیں ان کے اپنے ہموطن ہیں۔

ہمارے  نام نہاد دانشور اکثر و بیشتر یہ کہتے ہوئے پائے گئے ہیں کہ ہم امریکہ کا ڈرون مار کے خود کہاں جائیں گے؟ اس کے جواب میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ ان کا اپنا بچہ مرتا کسی ایسے حملے میں تو  پھر پوچھتے  ان  سے۔  ہر وقت ڈرون کی بھنبھناہٹ، اس کی ہمہ وقت موجودگی، اس کا کسی بھی مجمع پر حملہ کر ڈالنا ، اس حملہ کے نتیجے میں مدد کو آنے والوں کو بھی نشانہ بنانا،اپنے پیاروں ، اپنے  بچوں کی مسخ شدہ جلی ہوئی لاشیں ، اور کبھی صرف ان کے جسم کے ٹکڑے  ہی دفنا پانا۔   یہ سب وہ باتیں ہیں جو  انور بیگ اور خورشید ندیم جیسے  یہ ڈرائنگ روم کے دانشوروں کے لئے محسوس کرنا ان کے بس سے باہر ہے۔

کیا ہم ڈرون طیارے گرا سکتے ہیں؟    تو اس کے جواب میں پہلی بات تو  یہ  کہ پوری دنیا جانتی ہے کہ یہ ڈرون طیارے پاکستان کی اپنی  سرزمین سے اڑتے ہیں تو  ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی تو کوئی ہے ہی نہیں، رضا مندی  ہی رضامندی ہے۔  بلکہ ہمارے مقتدر حلقے تو ڈرون ٹیکنالوجی  مانگتے بھی رہے ہیں کہ جی ہمیں بھی تو دکھائیں۔     ڈرون مارگرانا کوئی مشکل کام نہیں ، لیکن مسئلہ یہ  ہے ہی نہیں کہ ہم مار سکتے ہیں کہ نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ ہم مارنا چاہتے ہیں کہ نہیں۔   ہمارے نئے نویلے وزیر اعظم صاحب نے فرمایا ہے  کہ ‘ڈرون پر تحفظات ہیں’۔ ان کے اس سے بھی نئے نویلے  مشیر  خارجہ  نے فرمایا کہ  ‘تمام صلاحیتیں بروئے کار لائی جا سکتی ہیں’۔  نجانے یہ باتیں کہہ کر وہ کس کی تسلی کرنا چاہتے ہیں ورنہ  صاف نظر آرہا ہے کہ  یہ  بھی  ‘اِب کے مار’ والے لوگ ہیں۔  AfPak ریجن کے لیے امریکہ کے نئے  نمائندہ   جیمز ڈابنز سے جب ہمارے ملک کے وزیر اعظم نے کہا کہ ڈرون حملے بند کر دیجیے تو اس نے ایک  یک لفظی جواب  جو دیاوہ  تھا “نہیں” اور ہماراردعمل  تھا ،’جی اچھا’۔ معذرت کے ساتھ ، یہی ڈرون اگر کوئی بیکری والا اڑا رہا ہوتا  اور اس نے  یہ ‘نہیں ‘ بولا ہوتا  تو  اس کے ساتھ یہ کیا سلوک کرتے وہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔

دتہ خیل میں مرنے والے داؤد خان کے بیٹے نور خان  نے پاکستانی وکیل شہزاد اکبر سے را بطہ کیا جو کہ  درجنوں دوسرے خاندانوں کے  لیے پاکستانی عدالتوں میں ان ڈروں حملوں میں مرنے اور زخمی ہونے والوں کے لیے عدل  مانگ رہے تھے۔   چند ماہ قبل پشاور ہائیکورٹ نے کیس کے فیصلے میں ڈرون حملوں کو غیر قانونی قرار دے دیا ۔  پاکستان کی پارلیمنٹ پہلے ہی ان حملوں کو نا جائز قرار دے چکی ہے۔  عمران خان نے پہلا مطالبہ  جو اس حکومت سے کیا ہے وہ یہی ہے کہ ڈرون حملوں کو رکوا دو ہم تمہارا ساتھ دیں گے۔ پاکستان کی حکومت کے پاس اب   ہر طرح کا اختیار ہے کہ وہ ان حملوں کو  ایک دم رکوا دے  لیکن ان کا پھر بھی ایسا نہ کر نا  سیدھا سیدھا اشارہ کرتا ہے  کہ یا تو ملی بھگت  ہے یا کردار کی کمی، یا  کردار کی کمی کی وجہ سے ملی بھگت!

جب اندلس  کے نا عاقبت اندیش حکمرانوں کے لیے سانس لینا دوبھر ہو گیا  اور  الفانسو ان کی  جڑوں میں بیٹھ گیا تو پھر انہوں نے مدد کے لیے   سمندر پار سے  یوسف بن تاشفین کو بلایا جس نے ایک ہی حملے میں الفانسو کا ایسا صفایا کیا کہ اگلے چار سو سال اندلس میں پھر اسلامی پرچم لہرانے لگا۔  ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کے حکمرانوں کے ہاتھ سے معاملات نکل چکے ہیں۔ یہ اب  اپنی مرضی سے  ایک روٹی  بھی نہیں خرید سکتے۔  تو ایسے وقت میں  کسی یوسف بن تاشفین کو نہ سہی، اپنی عوام کو ہی آواز دے لیں۔  ہمیں اصل معاملات سے آگاہ کریں۔  اس بات سے آگاہ کریں کہ مشرف نے جب ہمیں اس نا پاک اور نا مراد جنگ میں دھکیلا تھا تو کیا شرائط طے کی تھیں؟ اس جنگ میں پاکستان اور اس کے وسائل کی شمولیت کے parameters کیا تھے؟  پھر   وہ کیا وجہ ہے کہ  ہمارے شہروں میں اسلامی نام والی تنظیموں کے دھماکے کی ایک ایک لمحے کی خبر دکھائی جاتی ہے لیکن امریکہ کے ان ڈرون حملوں کی کوئی ایک ویڈیو بھی نہیں آتی ۔ کیوں ہم اپنے شہروں میں مرنے والے  شہریوں کی تعداد، علاقے ، حتیٰ کہ مسالک تک سے آگاہ ہیں لیکن  دتہ خیل، سرکوٹ ، میرانشاہ اور ڈامہ ڈولہ کے ان Hellfire میزائل میں مرنے والے ‘دہشت گردوں’ کی اصلیت سے نا واقف ہیں۔  اگر آپ  عوام کو اعتماد میں نہیں لیں گے تو  یہ معاملہ زیادہ دن چلنے والا نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ  وہ وقت دور نہیں جب یہ Predator اور Reaper کراچی، ملتان، رحیم یار خان،  کوئٹہ ، لاہور، ایبٹ آباد  اور اسلام آباد  کی  فضاؤں میں بھی ایسے ہی نظر آئیں گے۔  لیکن ایسے وقت میں نجانے کیوں مجھے یقین ہے  کہ ہمارے یہ پٹھان بھائی ہمیں ایسے نہیں چھوڑیں گے جیسے ہم نے انہیں چھوڑ رکھا ہے۔  اللہ ہمارے ان بھائیوں اور بہنوں کی حفاظت کرے۔ آمین!

Older Posts »

Create a free website or blog at WordPress.com.