Sirat e Mustqeem

August 1, 2014

یہ کیسی عید ہے؟


یہ عید کا دن تھا، اور عید کے دن عصر سے پہلے کا وقت کافی خاموشی کا ہوتا ہے۔ رمضان کے آخری عشرے میں بازاروں میں جو رش ہوتا ہے اس کا اینٹی کلائمکس یہ خاموشی ہے۔ توعید کے دن کوئی چار بجے کا وقت ہو گا کہ جب میں فیڈرل بی ایریا کے ایک پٹرول پمپ پر تھا، ، جتنی دیر میں گاڑی میں ایندھن بھرا جا رہا تھا، میں سڑک سے گزرنے والے لوگوں کو دیکھ رہا تھا۔ کبھی موٹر سائیکل پر کوئی صاحب اپنے چھوٹے سے بچے کو لے کر جاتے، کسی کے ہاتھ میں غبارہ، کسی نے رنگین چشمہ لگایا ہوا، زرق برق لباس اور خوشی دیدنی تھی۔
اور اسی وقت میری نظر ان دو بچوں پر پڑی جن کو دیکھ کر لگ رہا تھا جیسے ان کی زندگی میں عید آئی ہی نہیں۔ اپنے ارد گرد موجود رونق اور زندگی سے بے نیاز وہ اس سائن بورڈ کے نیچے سو رہے تھے۔ کمپنی کے اشتہار میں موجود نوجوان جس پر سینکڑوں دفعہ نظر گئی ہو گی، آج ایسا لگ رہا تھا جیسے معاشرے پر ایک بھرپور طنز کر رہا ہو۔ جیسے کہہ رہا ہو، ‘بہت اعلیٰ کام کر رہے ہیں آپ لوگ ان بچوں کو نظر انداز کر کے’۔
آپ کہیں گے کہ میں نے بھی تو صرف تصویر کھینچنے پر ہی اکتفاء کر لیا۔ میں نے کون سے ان کو نئے کپڑے دلا دیئے۔ یا ان کو کھانا کھلا دیا، یا ان کو پیسے ہی دے دیئے کہ وہ کچھ خرچ کر لیں۔ درست۔ اور میں اس بات میں اپنے آپ کو قصور وار سمجھتا ہوں مگر مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ میں ان کو نیند سے اٹھا کر پوچھ لوں کہ ‘بیٹا کھانا کھایا ہے کچھ’۔ اور ایک دن کے لیے ان کو کھانا کھلا کر یا کپڑے دلا کر ان کو دوبارہ اس زندگی میں مستقل طور پر چھوڑ دوں۔ اور فی الحال کوئی ایسا بندوبست کرنا ممکن نہیں لگ رہا جس میں ایسے بچوں کا کوئی مستقل سہارا ہو سکے۔
ناچار ایک ایسی حرکت کرنا پڑی جو مجھے خود پسند نہیں۔ تصویر کھینچ کر فیس بک پر لگا دی اور اپنا ‘فرض’ پورا کیا!!!۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کہتے ہیں عید تو بچوں کی ہی ہوتی ہے۔ اور واقعی بچے ہی اس دن سب سے زیادہ مصروف ہوتے ہیں۔ کبھی دادا کو سلام کر کے عیدی حاصل کی، کبھی نانا سے پیار اور عیدی۔ کبھی چاچا کبھی ماموں، کبھی خالہ تو کبھی پھوپھی۔ غرض ایک متوسط طبقے کے بچے کے پاس عید کے تین دنوں میں اچھی خاصی رقم جمع ہو جاتی ہے میرے اندازے کے مطابق اتنی رقم کہ جو عام دنوں میں ان کے اپنے گھر میں دو سے تین دن کا راشن اور گوشت ، سبزی وغیرہ کا انتظام کر سکے۔ ظاہر ہے بچوں کے اوپر یہ نا روا بوجھ ڈالنے کو میں نہیں کہہ رہا، مگر اتنا  ضرور ذہن میں آتا ہے کہ بچے ان پیسوں کا کرتے کیا ہیں؟ کھانا پینا تو ابا کے پیسوں سے ہی ہوتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ بچےعموماً ان پیسوں سے کچھ خاص نہیں کرتے، بہت ہو گیا تو بہت سی ‘چیز’ کھا لی اور بس۔ بہت سے ماں باپ وہ پیسے بچوں سے لے کر، اس میں کچھ پیسے جوڑ کر، ان کے لیے کوئی اچھی سی چیز لے لیتے ہیں۔
مگر دیکھنے کی بات تو یہ ہے کہ عید ہوتی کیا ہے؟ عید تو رمضان میں اللہ کے حضور مسلمانوں کے روزوں، نمازوں اور قربانیوں کے معاوضہ کا دن ہے۔ جب اللہ تعالیٰ  اپنے بندوں سے کہتے ہیں کہ جاؤ میں نے بخش دیا تمہیں۔ تو ہم مسلمان خوشی مناتے ہیں۔ مگر اس خوشی میں اگر ہم وہ پورا سبق ہی بھول جائیں جو رمضان میں سوکھتے حلق اور خالی پیٹ میں سیکھا تھا تو یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔
رمضان میں ثواب کئی کئی گنا بڑھ کر ملتا ہے۔ اسی لیے لوگ جوق در جوق، بلکہ زبردستی، لوگوں کا روزہ کھلوانے کے لیے پورے مہینےسڑک پر افطار کراتے ہیں۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ باقی سال اتنا ثواب نہیں دے سکتے۔ اخلاص سے کیئے گئے نیکی کے کام کو اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے سات سو گنا تک بڑھا دیتے ہیں۔ اور یہ بھی صرف ہمارے سمجھانے کے لیے ہی ہے۔ تو کیا ہی اچھا ہو کہ وہ لوگ جو  رمضان میں افطاریاں کراتے ہیں، باقی سال بھی اس کام کو کسی نہ کسی طرح جاری رکھیں۔

ناداروں کی دیکھ بھال کی اصل ذمہ دار حکومت وقت ہے۔ حضرت عمر ؓ کا وہ قول تو سب نے ہی سنا ہے کہ اگر فرات کے کنارے کتا بھی بھوکا مرتا ہے تو اس کا جواب دہ امیر المومنین ہے۔ تو ان بچوں کی اصل ذمہ داری تو حکومت پر ہی آتی ہے۔ اور اگر حکومت نہیں کرتی تو یہ لوگوں کی اولین ذمہ داری ہے کہ ہر ممکن طریقے سے حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کرائیں۔

لیکن اگر حکومت کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی، اور جو کہ واقعی نہیں رینگتی، تو یہ ذمہ داری معاشرے پر منتقل ہوجاتی ہے کہ اس معاشرے کے غریبوں کی مدد کی جائے۔ سب سے پہلا فرض رشتہ داروں اور پڑوسیوں کا ہے کہ وہ دیکھیں کہ ان کے قریب کے لوگوں کا یہ حال کیسے ہے۔  یہی اسلام کے معا شی نظام کی جڑ ہے، دولت  کا معاشرے میں ایسے گھومنا کہ جس میں دولت اہل ثروت میں ہی نہ قید ہو جائے، اور ایسے کہ ہرشخص اپنے قریبی رشتہ داروں اور پڑوسیوں کی خبر گیری کرے۔  اسلام کے معاشی نظام کی جڑ بنیاد میں مقصد معاشرے کی فلاح ہے۔
ایک عرصے سے یہ خیال ذہن میں ہے کہ یہ کام سب سے بہتر طریقے سے مساجد میں ہو سکتا ہے۔ ہماری اکثر مساجد میں اہل ثروت لوگ اپنی جیب سے بڑے بڑے خرچے کرتے ہیں۔ ائیر کنڈیشنر یا بڑے جہازی سائز پنکھے تو اب مساجد میں عام ہیں۔ مساجد میں بڑے بڑے منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچ جاتے ہیں مثلاً مینار اور گنبد ۔ مگر انہی مساجد میں نماز کے بعد اگر کوئی مانگنے کھڑا ہو جائے تو اس کو ڈانٹ کر چپ کرا دیا جاتا ہے کہ اس بارے میں حکم یہی ہے اور یہی کرنا چاہئے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ چپ نہ کرایا جائے، میں صرف یہ کہتا ہوں کہ ہم دور صحابہ میں نہیں ہیں جب ایک حقیقی فلاحی ریاست کی بنیاد رکھی جا چکی تھی تو اس سلسلے میں اس شخص کے ساتھ نرمی سے پیش آیا جائے، اس کی تذلیل نہ کی جائے۔ دوسرے یہ کہ مساجد میں ایک مد باقاعدہ اس کام کی ہونی چاہیے۔ جس میں محلے میں جو غریب ہیں ان کے لیے کم از کم راشن  اور دوسری بنیادی چیزوں کا انتظام ہونا چاہیے۔ اگر کوئی مانگنے والا اس مسجد میں آئے تو اس کو امام صاحب سے یا مسجد انتظامیہ کے فرد سے رابطہ کرنے کہا جائے۔ اور بات کیونکہ محلے کی ہی ہے تو ان کے گھر کے حالات سب کے سامنے ہونگے۔ ہر مسجد میں یہ طے ہو کہ اپنے پڑوسی کی ہی مدد کی جائے گی۔ اگر کسی اور علاقے سے کوئی ایسا شخص آتا ہے جو واقعی ضرورت مند ہے تو مسجد کی انتظامیہ اس علاقے کی مسجد سے اس شخص کا رابطہ قائم کروائے۔

بظاہر یہ بہت سادہ بات ہے، مگر حقیقتاً اس میں بہت سی پیچیدگیاں ہیں۔ جن کا ادراک ہر اس شخص کو ہے جس نے مساجد کے معاملات کو تھوڑا بہت دیکھا ہے۔ ان مسائل کا تذکرہ کرنا ایک باقاعدہ الگ مضمون کا متقاضی ہے۔ کہنے کی بات یہ ہے کہ ہم من حیث القوم اگر بے حس ہو گئے ہیں تو رمضان اس بے حسی سے جاگنے کا ایک بہت بڑا موقع ہوتا ہے۔ مسجد اسلامی معاشرے کا ایک بہت اہم ستون ہے۔ اس کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے اور کیا جانا چاہیے۔ تو اگر یہ کام ہو سکتا ہے، اور ظاہر ہے کسی اکیلے شخص کا یہ کام ہے ہی نہیں تو ، یہ کام کرنا ضرور چاہیے۔ جو بچے آج سڑکوں پر ایسے گھوم رہے ہیں۔ کل کو یہی بڑے ہوکر اگر غلط ہاتھوں میں پڑ گئے تو خدا نخواستہ ان سےمعاشرے کو ہی خطرہ لا حق ہو جائے گا، اور ہم ہی میں کچھ لوگ کہیں گے، کہ یہ لوگ کہاں سے آتے ہیں۔ یاد رکھیے، مجرم صرف جرم کو کرتا ہے، اسے جرم تک معاشرہ ہی لے کر جاتا ہے۔
اپنے بچوں میں ایثار اور قربانی کا جذبہ بیدار کرنا ہمارا ہی کام ہے۔ یہ کیسی عید ہوئی جس میں ہمارے بچے تو اتنا ‘کما’ لیں کہ ان کو خود سمجھ نہ آئے کہ کرنا کیا ہے ان پیسوں کا، اور یہ بچے کچھ بھی نہ پائیں جبکہ ان کے گھر میں بھوک ایک بہت بڑی حقیقت کے طور پر روزانہ جواب مانگتی ہو۔ تو اپنے بچوں سے ایسے بچوں کا سامنا کرائیں۔ ان کو پتہ ہونا چاہیئے کہ ان کو کیسی کیسی نعمتیں ملی ہوئی ہیں۔ ان کو پتہ چلنا چاہیئے کہ جن چیزوں کو وہ اپنا حق سمجھتے ہیں، ان میں سے درحقیقت کچھ بھی ان کا حق نہیں۔ اور ان کو پتہ چلے کہ اصل خوشی خود کھانے میں نہیں، بلکہ دوسروں کو کھلانے میں ہے۔ تب شاید ایسی عید آئے جس میں واقعی سب بچے خوش ہوں۔ کوئی بچہ عید کے دن محروم نہ ہو۔
مجھے اس عید کا انتظار ہے!۔

August 10, 2013

Good-Bye Ramadhan


اللہ اللہ کر کے رمضان ختم ہوا۔

Ramadan

صاحب یہ بھی کیا مہینہ ہے ! مسلمان گویا باؤلے ہی ہو گئے۔ بتاؤ جھنڈ کے جھنڈ مسجدوں کو آنے لگے۔ ہر نماز جمعہ کی نماز کا منظر پیش کر رہی تھی۔ بلکہ سچ پوچھو تو آدمی پہ آدمی گر رہا تھا۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے تو وہ وہ لوگ نمازوں کے لئے بھاگے چلے آ رہے تھے جو کہ سال بھر جمعہ میں بھی شاذ ہی دکھائی دیتے ہیں ۔ اف اتنی گرمی ، اس قدر حبس ہو جایا کرتا مسجد میں کہ مانو سانس لینا تک دشوار۔ اور تو اور فجر کی نماز تک بندہ سکون سے نہیں پڑھ سکتا تھا ۔ حد ہی ہو گئی ! ایک صاحب کی سنئے ! بتانے لگے کہ رمضان المبارک کی اولین رات کو ان کی مسجد عشاء کی اذان کے ساتھ ہی بھر گئی ۔ یہ پہنچے تو جگہ ندارد۔ دل ہی دل میں چیخے چلائے کہ “کم بختو میں تو روز آتا ہوں ، مجھے تو اندر آنے دو “… لیکن “کم بختوں “نے ایک نہ سنی ۔ زیادہ تگ و دو کی اندر گھسنے کی تو لوگو ں نے یوں گھورا گویا کہہ رہے ہوں کہ ” ابے تم سارا سال مسجد پہ قبضہ کئے رہے ہم نے کبھی کچھ کہا ؟ ہم تو فقط ایک ماہ کے لئے آئے ہیں ، اور آج پہلے دن ہی تمہارا منہ بن گیا۔ یہ صبر کا مہینہ ہے نا ؟تو اب ذرا تیس دن صبر کرو بلکہ دعا کرو کہ چاند انتیس کا ہو جائے۔ عید کی نماز کے بعد سارا سال مسجد میں منہ بھی دکھایا تو جو چور کی سزا وہ ہماری۔ “

اور جمعہ کو تو مساجد یوں ابل پڑتیں گویا دودھ ابل جائے ۔ نیچے تہہ خانے میں نمازی ، اندر کے ہال میں نمازی ۔ منزل در منزل … یہاں تک کہ اوپر چھت تک نمازی لگا دیئے ۔ پھر بھی باہر شامیانے لگانے پڑتے اور صفیں بچھانی پڑتیں۔ گزرگاہیں اور راستے مسدود کر دیئے جاتے ۔ آنے جانے والوں کو خون کے گھونٹ پینا پڑتے ۔ اللہ اللہ کر کے جان چھوٹی رمضان سے اور جان چھوٹی اس سارے جھنجھٹ سے ۔

اللہ اللہ کر کے بجلی کا بل بھی قابو میں آیا ۔ مسجد کے پنکھوں کی جان میں جان آئی اور قمقموں نے بھی سکھ  کا سانس لیا ۔ بتائیے فجر میں  بھی جمعہ کے برابر پنکھے چل رہے ہوتے تھے ۔ حد ہوتی ہے کسی بات کی !

اللہ اللہ کرکے پھلوں کے نرخ نیچے آئے اور کوالٹی بھی بہتر ہوئی ۔ ورنہ تو خربوزہ ایسا مل رہا تھا کہ بکری کو ڈالو تو وہ بھی منہ پھیر لے ۔ کسی من چلے نے کیا خوب کہا ہے کہ “زندگی میں دو چیزیں قسمت والوں کو ہی نصیب ہوتی ہیں ۔ اچھی بیوی … اور … رمضان میں میٹھا خربوزہ ۔ ” بھئی ہمیں تو آج تک یہی چکر سمجھ نہیں آیا کہ رمضان سال کے جس بھی موسم میں آئے …  آتا خربوزے کے سیزن میں ہی ہے۔ اور کیلا …. قسم لے لو لیلیٰ کی انگلی … بلکہ “مجنوں کی پسلی ” جیسا کیلا بھی سونے کے بھاؤ بک رہا تھا ۔ اوپر سے  پھل والے کی آوازیں … ” اوئے ہوئے … او کیلا ملائی … کیلا ملائی … کیلا ملائی … ” جلتی پہ یوں تیل کا کام کر رہی ہوتیں کہ سننے والا تلملا کر پکار اٹھے:”خبیث!”

اللہ اللہ کر کے ٹریفک کا نظام قدرے بہتر ہوا ۔ بھلا عام دنوں میں ہی ٹریفک کے اصولوں اور سگنل کی بتیوں کی کون پرواہ کرتا ہے … یہ تو پھر رمضان کے دن تھے ۔ ان میں افرا تفری اور بے صبری عروج پہ نہ دکھاتے  تو لعنت ایسی مسلمانیت پر! اور صاحب اس مہینے میں لڑائی جھگڑے اور گالی گلوچ کا تو قسم خدا کی اپنا ہی مزہ ہے ۔ ” ٹھیک ہے کہ ہم نے فلاں کی صحیح سے دھنائی کر دی لیکن اپنی ایمان سے بتائیے کہ کیا اس کی افطار کا مزہ دوبالا نہ ہو گیا ہو گا ؟ ہم نے تو کھجور شربت کی یکسانیت کے مارے کو افطار میں ایک چینج کرا دی اور آپ ہیں کہ ہمی کو کوس رہے ہیں! بھلا کتنے ہوں گے جو ہلدی والے دودھ سے روزہ افطار کرتے ہیں ۔ “

حلوائیوں کی بھی بے زاری ختم ہوئی ۔ کیا یکسانیت بھرے ایام تھے کہ دن بھر سموسے بنانا اور شام میں کڑاہی کے آگے کھڑے ہو کر سموسے تلنا۔ زندگی میں کوئی تیسرا کام ہی نہیں تھا گویا۔

روزہ خوروں نے بھی سکھ کا سانس لیا ۔ کیا فضول مہینہ ہے کہ بندہ روزہ  “نہ ” رکھنے کے باوجود بھی نہ تو کھلے عام کھا پی سکتا ہے ، اور نہ ہی سگریٹ پھونک سکتا یا پان گٹکا چبا سکتا ہے ۔ بندہ پانی کی بوتل بھی منہ سے لگائے  تو لوگ ایسے گھورنے لگتے گویا وہ وہسکی کی چسکیاں لگا رہا ہو!

رویت ہلال کمیٹی والوں کی بھی جان چھوٹی ۔ سال کے یہ دو چاند دکھانے کے لئے ان کی جان پہ بنی ہوئی ہوتی ہے ۔ ایک رمضان المبارک کا اور دوسرا عید الفطر کا ۔ بِزتی خراب ہونے کا شکوہ اپنی جگہ لیکن اپنی ایمان سے بتائیے کہ ان دو مواقع کے علاوہ باقی سارا سال کوئی آپ کو منہ لگاتا ہے بھلا؟

موسیقی کے رسیا بھی عجیب ٹینشن میں تھے کہ بندہ نہ ہندوستانی فلمی گانے سن سکتا ہے نہ عاطف اسلم اور علی ظفر کے ، لے دے کے وہی عزیز میاں اور غلام فرید صابری کی قوالیوں پر گزارا کرنا پڑتا ۔

اور ہندوستانی فلموں کے شوقین بھی اس انتظار میں تھے کہ کب رمضان ختم ہو اور کب اس ماہ کے دوران ریلیز ہونے والی فلموں کی “قضا “کی جائے ۔

تو بھائی رمضان !

چلو اپنی راہ لو ۔

اور ہاں چلتے چلتے یہ شعر ذرا سی ترمیم کے بعد تمہاری نذر …

دو ہی گھڑیاں زندگی میں ہم پہ گزری ہیں کٹھن

اک ترے “جانے “سے پہلے اک ترے “آنے “کے بعد

Eid-e-Saeed


عید سعید

ابو شہیر

عید کیا ہے ؟

عید مسلمانوں کا مذہبی تہوار ہے ۔ اس دن مسلمان خوشی مناتے ہیں۔

مسلمان یہ خوشی کیوں مناتے ہیں ؟

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب عید کا دن ہوتا ہے تو حق تعالیٰ شانہ اپنے فرشتوں کے سامنے بندوں کی عبادت پر فخر فرماتے ہیں ( اس لئے کہ انہوں نے آدمیوں پر طعن کیا تھا ) اور ان سے دریافت فرماتے ہیں کہ اے فرشتو! کیا بدلہ ہے اس مزدور کا جو اپنی خدمت پوری پوری ادا کر دے ؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ یا رب! اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی اجرت پوری دے دی جائے۔ تو ارشاد ہوتاہے کہ فرشتو! میرے غلاموں اور باندیوں نے میرے فریضہ کو پورا کر دیا ، پھر دعا کے ساتھ چلاتے ہوئے ( عیدگاہ کی طرف ) نکلے ہیں۔ میری عزت کی قسم! میرے جلال کی قسم ! میرے علو شان کی قسم ! میرے بلندیٔ مرتبہ کی قسم ! میں ان لوگوں کی دعا ضرور قبول کروں گا ۔ پھر ان لوگوں کو خطاب فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ جاؤ! تمہارے گناہ معاف کر دیئے ہیں اور تمہاری برائیوں کو نیکیوں سے بدل دیا ہے ۔ پس یہ لوگ عید گاہ سے ایسے حال میں لوٹتے ہیں کہ ان کے گناہ معاف ہو چکے ہوتے ہیں۔ ( رواہ البیہقی فی شعب الایمان کذا فی المشکوٰۃ)

سبحان اللہ! کیا منظر ہو گا کہ آسمانوں میں اللہ رب العزت کا دربار لگا ہوا ہے ۔ اللہ رب العزت اپنے عرش پر جلوہ افروز ہیں ۔ فرشتے دست بستہ کھڑے ہوئے ہیں۔ اور سوال جواب کا ایک سیشن session منعقد ہو رہا ہے ۔ کیا منظر ہو گا کہ اللہ رب العزت میری آپ کی طرف اشارہ کر کے ، میرا آپ کا نام لے کر کہے : ارے فرشتو! تم تو کہتے تھے یہ زمین میں فساد کرے گا۔ آؤ دیکھو۔ یہ میرا فلاں بندہ ہے ۔۔۔یہ میرا فلاں بندہ ہے ۔۔۔ یہ میرا فلاں بندہ ہے ۔ دیکھو اس نے اپنی ذمہ داری پوری ادا کر دی ۔ اس نے مجھے دیکھا بھی نہیں لیکن پھر بھی میں نے اس سے جو کہا ، اس نے کر کے دکھا دیا ۔ یہ میری محبت میں ، میری اطاعت میں کھانا پینا چھوڑ بیٹھا تھا۔ نماز ، تلاوت ، صدقہ سے مجھے خوش اور راضی کرنے کی کوشش میں لگا رہا ۔ اس دھن میں مگن رہا کہ مجھے ۔۔۔ اپنے رب کو دوسروں سے زیادہ نیکیوں میں بڑھ کر دکھا دے ۔ میری جنت کو نہیں دیکھا لیکن مجھ سے جنت طلب کرتا رہا ۔ میری جہنم کو نہیں دیکھا لیکن اس کے پناہ مانگتا رہا ۔ بتاؤ اب میں اس کو کیا بدلہ دوں؟ فرشتوں کا جواب ہو گا کہ الٰہی طریقہ تو یہی ہے کہ مزدور جب اپنی خدمت پوری کر دے تو اس کی مزدوری عطا کر دی جائے ۔

کیا منظر ہوتا ہو گا اس وقت کہ جب اللہ رب العزت ۔۔۔ میرے لئے ۔۔۔ آپ کے لئے ۔۔۔ اپنی عزت کی ، اپنے جاہ و جلال کی ، اپنی رفعت شان کی ، اپنے بلند و بالا مرتبہ کی قسمیں کھا کر ۔۔۔ چار قسمیں کھا کر کہہ رہے ہوں گے : میرے بندے ! میں تمہاری دعا ضرور قبول کروں گا ۔ اے میرے بندے فلاں ! اے میرے بندے فلاں ! اے فلاں بن فلاں! آج عید کا دن ہے ۔ آج خوشیوں کا دن ہے ۔ آج تو خوش ہو جا ۔۔۔ آج میں تیری مغفرت کا اعلان کرتا ہوں ۔ جا تیرے تمام گناہ معاف کر دئیے ۔۔۔ یہی نہیں بلکہ تیرے گناہوں کی جگہ بھی نیکیاں لکھ دیں۔ کیسی زبردست ہوتی ہو گی آسمانوں میں منعقد ہونے والی عید کی تقریب۔۔۔

کاش ہم دیکھ سکتے!

کاش ہم سن سکتے !

کاش ہم محسوس کر سکتے!

کاش ہم جان سکتے کہ عید کیا ہے؟

Create a free website or blog at WordPress.com.