Sirat e Mustqeem

October 16, 2015

Zan Mureed


پہلی مرتبہ وہ مجھے جمرات پر نظر آئے۔ مناسب قد و قامت کے حامل تھے۔ چہرے پہ سجی سفید داڑھی نہایت بھلی معلوم ہو رہی تھی۔ بڑے جذبے سے کنکریاں مار رہے تھے۔ سات کنکریاں مار چکے تو پھر سات اور ماریں۔ خیال ہوا کہ شاید کسی اور نے اپنی رمی کرنے کے لئے وکیل بنایا ہو گا۔  پھر قربان گاہ میں دیکھا تو یکے بعد دیگرے دو دنبے ذبح کئے۔ ظاہر ہے قربانی کے لئے بھی بہت سے لوگ ذمہ داری لے لیتے ہیں، سو اس میں بھی کوئی غیر معمولی بات نہ لگی۔  اگلے روز طواف وداع کے لئے حرم پہنچا توطواف کے آغاز پر پھر وہ نظر آئے۔ میں طواف شروع کر رہا تھا اور وہ طواف مکمل کر کے ہجوم سے باہر نکل رہے تھے۔ لیکن پھر انہیں دوبارہ طواف کرتے ہوئے پایا۔ سخت تعجب ہوا کہ اس قدر ہجوم میں ایک ہی طواف کرنا مشکل ہو رہا تھا  اور یہ حضرت دوسرا طواف کرنےلگ گئے۔  بعد ازاں صفا مروہ کی سعی کے دوران پھر ان پر نگاہ پڑی ۔ مروہ پر سعی مکمل کر کے میں چپل اٹھانے  کی غرض سے صفا پر پہنچا تو انہیں ایک بار پھر سعی کی نیت کرتے اور پھر صفا سے مروہ کی جانب چلتے دیکھا۔ اب تو سخت حیرت ہوئی کہ حضرت ہر عمل دو دو بار کر رہے ہیں۔ خیال ہوا کہ پوچھنا چاہئے لیکن اس قدر ہجوم میں کہاں موقع تھا ان باتوں کا۔ سو اپنی راہ لی۔ لیکن ایک کھٹک سی دل میں برقرار رہی۔

حج کے بعد ایک روز میں ناشتے کی غرض سے بقالے کی جانب جا رہا تھا کہ وہ گلی میں داخل ہوتے نظر آئے۔ سلام دعا کے بعد باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ قریبی عمارت میں ہی رہائش پزیر ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ سے کچھ باتیں دریافت کرنا چاہتا ہوں۔  کہنے لگے : چلئے میاں ! ہمارے کمرے میں آ جائیے۔ ناشتہ ساتھ ہی کرتے ہیں۔ چنانچہ ان کے کمرے میں جا پہنچا۔ کمرے میں دو بستر پڑے تھے۔ اور باقی سامان سلیقے سے رکھا ہوا تھا۔

ناشتے کے دوران کچھ ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ پھر انہوں نے کہا: میاں پوچھئے کیا پوچھنا چاہ رہے تھےآپ ؟عرض کی : حضرت ! حج کے ارکان کی ادائیگی کے دوران آپ  مجھے جا بجا نظر آئے۔ آپ کو ہر عمل دو دو بار کرتے دیکھا۔ بس یہی بات کھٹک رہی تھی ۔ اگر مناسب سمجھیں تو وجہ بتا دیجئے۔ سوال سن کر وہ ٹھٹک کر رہ گئے۔ پھر ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ مجھے سخت افسوس ہوا کہ ناحق ان کو دکھی کر دیا۔ معذرت کرنےلگا ۔ کہنے لگے: نہیں میاں ! معذرت کیسی؟  بتائے دیتے ہیں آپ کو۔ شاید کچھ دل کا بار کم ہو جائے۔ پھر رومال سے آنکھیں پونچھ کے آہستہ آہستہ بتانے لگے:

میاں کیا بتائیں؟ بیگم کو حج کی شدید آرزو تھی۔ چھ ماہ پہلے کی بات ہے جب حج فارم جمع ہونے کی تاریخوں کا اعلان ہوا تو پیچھے لگ گئی کہ اس بار ہم بھی فارم بھر دیں۔ ہم نے کہا کہ بھئی ابھی وقت مناسب نہیں معلوم ہوتا ۔ بچیاں شادی کی عمر کو پہنچ گئی ہیں۔ رقم پس انداز کرنی شروع کر دینی چاہئے۔ آخر کو ان کی شادیاں کرنی ہیں۔لگی حدیثیں سنانے۔ کہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا کہ حج فرض ہو جانے کے بعد حج کی ادائیگی میں جلدی کرنی چاہئے کہ جانے کب کیا رکاوٹ پیش آ جائے۔ پھر دوسری حدیث یہ سنا دی کہ جو حج کی ادائیگی کی قدرت رکھنے کے باوجود حج نہ کرے تو وہ چاہے یہودی ہو کے مرے یا نصرانی۔ پھر تیسری حدیث کہ حج مبرور کا بدلہ جنت کے سوا کچھ نہیں۔ پھر ایک دلیل یہ دی کہ پہلے کوئی کام رکا ہے ہمارا جو آئندہ رکے گا؟ جب جس چیز کی ضرورت پڑی، اللہ نے اپنے فضل سے پوری کر دی۔ آئندہ بھی کر دے گا۔ تو میاں سمجھو یوں حج کا فارم جمع کرا دیا۔ اور پھر یہاں چلے آئے۔

میاں مت پوچھو کہ بیت اللہ پر پہلی نگاہ پڑی تو کیا حالت ہوئی۔ کیسا سرور ملا۔ جھوم کے کہا :بیگم !اس ایک نگاہ میں ہی سارے پیسے وصول ہو گئے۔ عمرہ ادا کیا تو نشاط طاری ہو گیا۔ یہی خیال آتا رہا کہ عمرہ میں اتنی لذت ہے تو حج کیا ہو گا؟ حج کے انتظار کے دنوں میں طواف اور نماز کے لئے بیت اللہ کے چکر لگتے رہے ۔ اس دوران سرکار ﷺ کے دربار میں حاضری کا موقع بھی ملا۔ دیار نبی ﷺ سے فیض پا کر مکہ لوٹے تو مزید ایک عمرہ کا موقع ملا۔ ہر لمحہ اللہ کی رحمت کا ہالہ اپنے گردا گرد محسوس ہوتا تھا۔ میاں دعائیں تو یوں قبول ہو رہی تھیں گویا اللہ انتظار میں بیٹھا ہو کہ بندے کے منہ سے کوئی سوال نکلے اور وہ پورا کرے۔ اللہ اکبر۔ بھئی یقین مانو اسی کا ظرف ہے ورنہ کہاں ہم سا گنہگار کہ حج ایسے فریضے کی ادائیگی کی فکر کرنے کے بجائے ٹال مٹول اور بہانے بازیاں ، اور کہاں اس کا کرم۔ چاہتا تو وہ بھی ہماری دعاؤں کو ٹال دیتا ۔ لیکن نہیں میاں۔ بلا بھی لیا اور مان بھی گیا۔

دن یونہی مزے میں گزر رہے تھے۔ حج قریب آتا جا رہا تھا۔ وہ جمعہ کی شام تھی۔ آسمان پر کالے بادل گھر گھر کے آنے لگے ۔ پھر باران رحمت کا نزول ہوا۔ شدید بارش ہوئی۔ ہم  اور ہماری بیگم حرم کے بیرونی صحن میں تھے۔ لمحوں میں کپڑے تر بتر ہو گئے ۔ طے ہوا واپس رہائش گاہ پر چلا جائے۔ دو چار قدم چلے تھے کہ ہمیں خیال آیا کہ پانی کے تھرماس میں زم زم ختم ہو چکاہے۔ بیگم سے ذکر کیا تو جھٹ سے بولی : آپ ٹھہریں ۔ میں بھر کے لاتی ہوں۔ اور پاس ہی موجود زم زم کی ٹنکی کی جانب دوڑ پڑی۔ چند قدم ہی آگے بڑھی ہو گی کہ ایک دھماکہ ہوا اور اوپر سے ٹنوں وزنی کرین آ گری۔  میاں بس مت پوچھو آن کی آن میں کیا ہو گیا۔ ان کی آواز بیٹھتی چلی گئی۔میری بھی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وہ حادثہ تھا ہی اتنا اندوہناک ۔ ایک لمحہ میں بیسیوں حاجی شہید ہو گئے تھے۔ اور بے شمار زخمی۔ حرم کا مرمریں صحن سرخ ہو گیا تھا۔ تعزیت کرنی چاہی لیکن الفاظ گویا حلق میں پھنس کر رہ گئے۔

کچھ دیر سکوت کے بعد انہوں نے ہی خاموشی توڑی: میاں! کیا بتاؤں کتنی خوبیاں تھیں اس میں۔ نہایت صابر شاکر ۔ وفا شعار ۔ سلیقہ مند۔ اللہ کی رضا میں راضی۔ بھاگ بھاگ کے ہماری خدمتیں کیا کرتی تھی۔ ہماری مرضی پہ اپنی مرضی کو قربان کر دیا۔ اپنی پسند نا پسند کوہماری پسند نا پسند کے مطابق ڈھال لیا۔ ہر خوشی غمی ، تنگی و وسعت  ، دکھ بیماری میں ہمارے شانہ بشانہ۔ وہ کہتی تھی کہ عورت کا مرد کے شانہ بشانہ چلنے کا اصل اور پسندیدہ طریقہ اس کی نظر میں یہی ہے۔

میاں ! نکاح میں قبول ہے کہا نا ۔۔۔ تو پھر ہر طرح سے ہمیں قبول کر کے دکھایا۔ ہماری جھڑکیاں اور نخرے برداشت کئے ۔ کبھی شکوہ نہ کیا۔ وقت بے وقت کی فرمائشیں پوری کیں۔ سفر حج کے سامان کی پیکنگ کے وقت ہماری ضرورت کی تمام اشیاء خود ہی جمع کر کے رکھیں۔ کپڑوں سے لے کر سیفٹی پن تک، اور عینک سے لے کر دواؤں تک ہر چیز کی موجودگی کو یقینی بنایا۔  تربیتی نشستوں میں باقاعدگی سے شرکت کا اہتمام کیا۔

اور یہاں آ کے تو وہ گویا بچھی ہی چلی جا رہی تھی۔ ہل کے پانی تک نہ پینے دیتی ہمیں۔ حرم میں حاضری کے بعد تھک ہار کر واپس آتے تو خود باوجود تھکان کے ہمارے پیر دبانے لگ جاتی۔ ہم روکتے تو کہتی کہ پہلے تو آپ صرف شوہر تھے، اب تو اللہ کے مہمان بھی ہیں۔ اللہ کے مہمان کی خدمت کرنے دیجئے۔ کبھی کبھی احساس تشکر سے بھیگی آنکھیں لئے ہمارے ہاتھ پکڑ کر کہتی کہ آپ نے مجھے اللہ کا گھر دکھا دیا۔ حالانکہ درحقیقت وہ ہمیں لے کر آئی تھی۔ ہاہ !وہ صرف ہماری دنیا ہی کے نہیں، آخرت کے بارے میں بھی فکر مند رہا کرتی تھی۔ میاں اللہ والی تھی ۔۔۔ بڑی اللہ والی۔ جبھی تو اللہ نے اسے پاک صاف کر کے اپنے پاس بلا لیا۔ شہادت کی موت عطا فرما دی۔ سیدہ خدیجہؓ کے قدموں میں جگہ عطا فرما دی۔ میاں اندازہ کرو کہ اس کی طلب کتنی سچی اور دھن کتنی پکی تھی! کیسے بلند درجات پا لئے۔ بچوں کی بھی ایسی تربیت کی کہ جب بچوں کو اس کی شہادت کی اطلاع دی تو وہ الٹا  ہمیں ہی صبر کی تلقین کرنے لگے۔ سچ فرمایا سرکار ﷺ نے کہ دنیا کی بہترین نعمت  نیک بیوی ہے۔ اس نیک بخت نے خدمتیں کر کر کے ہمیں اپنا مرید بنا لیا تھا۔

میاں حج پر ہر ہر رکن کی ادائیگی کے دوران اس کی کمی محسوس ہوئی ۔ سو اس کی طرف سے بھی رمی، قربانی، طواف وداع اور سعی کر دی ۔۔۔ بس یونہی اپنے دل کے بہلاوے کو۔۔۔  کہ ہم نے قدم قدم پر خود کو اس کی محبتوں اور وفاؤں کا مقروض پایا۔

سارے خاندان والے ہمیں زن مرید کہتے ہیں۔

چاہو تو تم بھی کہہ لو!

June 28, 2013

Hunh! Hamen to kisi nay poocha hi nahi…


ہونہہ! ہمیں تو کسی نے پوچھا ہی نہیں …

از۔۔۔ ابو شہیر

حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کا شمار عشرہ مبشرہ میں ہوتا ہے ۔ یعنی وہ دس صحابہ ؓ، جن کو دنیا ہی میں زبان رسالت ﷺ سے جنت کی بشارت عطا ہوئی ۔ان  کا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کے اوپر زرد رنگ کا نشان تھا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : کیا نکاح کر لیا ہے ؟

کہا: جی ہاں ۔

دریافت فرمایا: کس سے ؟

جواب دیا: ایک انصاری عورت سے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا : اسے مہر کتنا دیاہے ؟

انہوں نے کہا :ایک گٹھلی کے برابر سونا ۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر ولیمہ کر خواہ ایک بکری ہی کا ہو ۔

حضرت عبد الرحمٰن ابن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا شمار چوٹی کے مالدار صحابہ ؓ میں ہوتا تھا۔ دولت ان پر برستی تھی ۔ مکے سے خالی ہاتھ آئے تھے لیکن جب ان کے انصاری بھائی حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ نے اپنا نصف مال ان کو پیش کیا تو انہوں نے ان کی اس پیشکش کو قبول کرنے سے معذرت کر لی اور دعا دیتے ہوئے کہا کہ مجھے بازار کا راستہ بتا دیجئے ۔ یوں انہوں نے مدینہ منورہ میں تجارت کا آغاز کیا جو کہ بعد ازاں اتنی وسعت اختیار کر گئی کہ ان کا تجارتی مال سینکڑوں اونٹوں پر لد کر باہر جاتا اور اسی طرح باہر سے آتا ۔ تجارت کے علاوہ زراعت بھی وسیع پیمانے پر کیا کرتے تھے ۔ حضرت عبد الرحمٰن ابن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ دولت کے ساتھ ساتھ دل کے بھی غنی تھے۔ اپنی دولت راہ خدا میں بے دریغ خرچ فرمایا کرتے تھے ۔ ابن اثیر کے مطابق حضرت عبد الرحمٰن ابن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دو بار چالیس چالیس ہزار دینار راہ خدا میں وقف کئے ۔ ایک مرتبہ جہاد کے موقع پر پانچ سو گھوڑے اور پانچ سو اونٹ حاضر کئے ۔ سورۃ برأۃ کے نزول کے موقع پر چار ہزار درہم پیش کئے ۔ ایک مرتبہ اپنی ایک زمین چالیس ہزار دینا ر میں فروخت کی اور یہ ساری رقم فقراء ، اہل حاجت اور امہات المؤمنین میں تقسیم کر دی ۔ ایک مرتبہ شام سے تجارتی قافلہ لوٹنے پر رسول اکرم ﷺ کا یہ قول سنا کہ عبد الرحمٰن ابن عوف ؓ جنت میں گھسٹتے ہوئے داخل ہوں گےتو پورا قافلہ راہ خدا میں وقف کر دیا ۔ ابن سعدؒ کے مطابق ایک مرتبہ حضرت عبد الرحمٰن ابن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی ایک زمین چالیس ہزار دینار میں فروخت کر کے ساری رقم امہات المؤمنین میں تقسیم کر دی ۔ ایک اور موقع پر ایک زمین چالیس ہزار دینار میں حضرت عثمان غنی ؓ کو فروخت کر کے وہ رقم بھی راہ خدا میں وقف کر دی ۔ اس کے علاوہ اپنی زندگی میں ہزاروں غلام اور لونڈیاں آزاد کیں ۔

وفات کے وقت جو ترکہ پیچھے چھوڑا اس میں کثیر جائیداد کے علاوہ ١ ہزار اونٹ،٣ ہزار بکرياںاور سو گھوڑے چھوڑے ۔ ٢٠ اونٹ ان کی جرف کی زمينيں سيراب کرتے تھے۔ سونا اتنا تھا کہ اسے کلہاڑی سے کاٹا گيا اور کاٹنے والوں کے ہاتھوں ميں آبلے پڑ گئے۔ عبدالرحمان کی ٤ بيواؤں ميں سے ہر ايک کو ٨٠ ہزار دينار ملے۔ ٥٠ ہزار ديناران کی وصيت کے مطابق مسافروں کو ديے گئے۔ جنگ بدر ميں حصہ لینے والے ہر صحابی کے ليے انھوں نے ٤٠٠ دينار کی وصيت کی تھی ، جن کی تعداد ١٠٠ تھی ۔ امہات المومنين کے ليے ایک باغ کی وصیت کی جو ٤ لاکھ درہم میں فروخت ہوا۔ اپنے غلاموں ميں سے بيشتر کو انھوں نے آزاد کر ديا تھا۔ یہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف ؓ    کی دولت کا مختصر سا جائزہ ہے ، جس سے بخوبی ظاہر ہے کہ وہ اپنے وقت کے کروڑ پتی آدمی تھے ۔ اتنے بڑے رئیس نے اپنی تمام دولت و ثروت کے باوجود نکاح کیا … تو اتنی سادگی سے  … کہ وقت کے نبی رسول اکرم ﷺ تک کو بھی مدعو نہیں کیا ۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو رسول پاک ﷺ سے کس قدر محبت تھی ، یہ جاننے کے لئے سیرت مبارکہ کے دو واقعات دیکھ لیتے ہیں۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر عروہ بن مسعود ثقفی کفار کے نمائندے بن کر آئے تو یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ ؓ آپ ؐ کے وضو کا پانی تک زمین پر گرنے نہیں دیتے اور لے لے کر ہاتھوں اور چہروں پر مل لیتے ۔ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ حضرت ام سلیم ؓ کے گھر میں آرام فرما رہے تھے ۔ گرمی کے باعث آپؐ کے جسم اطہر سے پسینہ ٹپک رہا تھا ۔ حضرت ام سلیم ؓ نے وہ پسینہ ایک بوتل نیچے رکھ دی اور پسینہ اس میں جمع ہونے لگا۔ حضور ﷺ کی آنکھ کھلی تو پوچھا کہ ام سلیم کیا کر رہی ہو۔ کہا آپ کا پسینہ مبارک جمع کر رہی ہوں۔ بعد میں جب اس پسینے کو چھڑکتیں تو پورا گھر مہک اٹھتا کہ حضور ﷺ کا پسینہ مبارک بھی معطر اور خوشبودار ہوتا تھا۔

تو رسول اللہ ﷺ سے تمام تر محبت کے باوجود حضرت عبد الرحمٰن بن عوف نے نکاح میں آپ ﷺ کو دعوت نہ دی ۔ بعد ازاں جب رسول اللہ ﷺ نے زرد رنگ کے نشانات دیکھے تو استفسار فرمایا کہ کیا نکاح کر لیا ہے ؟ جس کے بعد دونوں حضرات کے مابین درج بالا مکالمہ ہوا ۔ اس واقعہ سے صاف ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مدعو نہ کئے جانے پر کسی قسم کی کوئی شکایت نہ کی ۔

بڑے دعوے کرتے ہیں ہم رشتہ داروں سے محبت کے ۔ لیکن جب ہمارا کوئی رشتہ دار ہمیں کسی وجہ سے اپنے ہاں کی تقریب میں مدعو نہ کرے تو ہمارا رویہ کیا ہوتا ہے ؟ منہ بسور کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ناراض ہو جاتے ہیں۔ لڑ پڑتے ہیں۔ حد تو یہ کہ قطع تعلق کر بیٹھتے ہیں۔

“ہونہہ ! ہمیں تو کسی نے بلایا ہی نہیں۔ ہمیں تو کسی نے پوچھا ہی نہیں۔ ہمیں تو کسی نے اس قابل ہی نہیں سمجھا ۔ناک کٹ گئی ہماری ۔ لعنت ہو ایسی رشتہ داری پر۔  دفعہ کرو ایسے رشتہ داروں کو ۔ “

سوال یہ ہے کہ ہم اپنے رشتہ داروں سے جس قدر شدید محبت کے دعوے کیا کرتے ہیں …کیاہماری محبت اس محبت سے زیادہ … یا اس کے برابر ہے …یا ہو سکتی ہے … جو  صحابہ کرام ؓ اور رسول اللہ ﷺ نے درمیان تھی ؟ سوال یہ بھی ہے کہ ہم صحابہ کرام ؓ اور رسول اللہ ﷺ سے محبت کے جتنے بلند و بانگ دعوے کیا کرتے ہیں … کیا ہمارے گھروں کی شادیاں اتنی سادگی اور اتنی خاموشی سے ہو سکتی ہیں ؟ سوال یہ بھی ہے کہ اگر ہمارا کوئی رشتہ دار سنت کی پیروی میں شادی ایسی “سادی “کر لے تو … کیا ہمارے لئے اس کا یہ عمل قابل قبول یا قابل برداشت ہوتا ہے ؟ سوال یہ بھی ہے کہ اگر وہ اپنی کسی مجبوری کے تحت ہمیں مدعو نہ کرے  تو …  کیا ہمارا رد عمل سنت نبوی ﷺ سے مطابقت یا مشابہت رکھتا ہے ؟

Blog at WordPress.com.