Sirat e Mustqeem

October 16, 2015

Your memories on Facebook


یور میموریز آن فیس بک

memo

مائی گاڈ۔۔۔!

یہ فیس بک بھی ناں ۔۔۔

بہت گڑبڑ چیز ہے۔۔۔

اس کی یادداشت ۔۔۔ توبہ!

اس کا حافظہ۔۔۔ غضب!

بتائیے بھلا۔۔۔ !

سال دو سال پہلے ہم نے آج کے دن کیا شیئر کیا تھا،

یور میموریز آن فیس بک کے نام سے لا کے سامنے رکھ دیا۔۔۔ !

 مثال کے طور پر کل ہی کی بات لے لیجئے۔۔۔

ہماری ہی ایک پوسٹ ہمارے ہی سامنے لا کے رکھ دی کہ

یہ لو۔۔۔

یہ تم نے پچھلے برس آج کے دن شیئر کی تھی۔۔۔

گویا ۔۔۔

ہماری اپنی ہی کارستانیاں ۔۔۔

ہمارے اپنے ہی کرتوت ۔۔۔

ہمارے ہی سامنے رکھ کے ۔۔۔

ہمیں کہہ رہی ہو۔۔۔

اقْرَأْ كِتَابَكَ ۔۔۔ كَفَىٰ بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا ﴿سورۃ الاسراء ، آیت 14﴾

“لو پڑھ لو اپنا اعمال نامہ۔۔۔ آج تم خود اپنا حساب لینے کے لئے کافی ہو!”

آگے خود ہی سمجھ لیجئے!

August 17, 2013

Lailatul-Qadr


لیلۃ القدر

ابو شہیر

رمضان المبارک کا آخری عشرہ شروع ہو چکا تھا ۔ عشرہ نجات ۔۔۔ جہنم سے آزادی کا عشرہ۔ صلوٰۃ التراویح میں قرآن پاک کے چھبیسویں پارے کی تلاوت جاری تھی۔ سورۃ محمد کی آیت نے اسے جھنجھوڑا۔

اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْآنَ اَمْ عَلیٰ قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَا

بھلا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا (ان کے )دلوں پر قفل لگ گئے ہیں؟

آگے پھر سورۃ الحجرات شروع ہوئی ، یہاں تک کہ قاری صاحب نے اس سورۃ مبارکہ کی آخری آیت تلاوت فرمائی۔۔۔

اِنَّ اللہَ یَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْض۔۔۔

بے شک اللہ تعالیٰ زمین آسمان کی پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے۔

گزشتہ شب اعتکاف میں بیٹھے ساتھیوں کے درمیان یہ مذاکرہ چل نکلا کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان کا مطلب کیا ہے؟ سب ساتھیوں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ خلاصہ یہ تھا کہ اللہ علیم ہے ، حکیم ہے، عظیم ہے … سب سے زیادہ علم والا ، حکمت والا، قدرت والا، طاقت والا، بصارت و بصیرت والا… کوئی بھی چیز اس کی قدرت اور اس کے علم سے باہر نہیں۔ بڑی نافع گفتگو رہی تھی۔ ایمان تازہ ہو گیا ۔ تو اس پس منظر میں مذکورہ بالا آیت سن کر اس کے دل میں اپنے رب کی عظمت مزید قوی ہوئی کہ کیسا زبردست ہے وہ رب کہ سب کچھ جانتا ہے! وہ بھی …. جو ہمیں نظر آرہا ہے یا جو ہمارے علم میں ہے ، اور وہ بھی… جو ہماری نگاہوں سے ہی نہیں ، ہمارے وہم و گمان سے بھی اوجھل ہے۔ یا اللہ ! تجھ سا نہ کوئی ہے نہ ہو سکتاہے ۔ اشھد ان لا الٰہ الا اللہ ۔

دفعتاً اسے ایک جھرجھری سی آئی! اللہ تعالیٰ تو اس کے بارے میں بھی سب کچھ جانتا ہے ۔ اس کا اگلا پچھلا سب اس رب کے علم میں ہے۔ اس کی نافرمانیاں ! اس کی سرکشیاں! اس کے جرائم ! اس کی بغاوتیں! کچھ بھی تو پوشیدہ نہیں۔ اور اس کا انجام … وہ علام الغیوب تو اس کا بھی علم رکھتا ہے۔ “اے اللہ! اے میرے رب! بے شک تو جانتا ہے کہ تیرے اس بندے کا انجام کیا ہونے والا ہے؟ تو جانتا ہے کہ آخرت میں میرے لئے کیا ہے ؟ خدانخواستہ جہنم ؟ ہلاکت؟ تباہی و بربادی؟ انگارے؟ تیرا غیظ و غضب؟ ” بس اس خیال کا آنا تھا کہ اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ آگے کیا پڑھا گیا ، اسے کچھ یاد نہیں ۔ بس اتنا اسے یاد ہے کہ اس کی گھگھی بندھی ہوئی تھی ۔۔۔ آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ۔۔۔ اور دل ہی دل میں

اللھم انک عفو کریم تحب العفو فاعف عنا ۔۔۔

اللھم اغفر لنا و ارحمنا و اعتق رقابنا من النار ۔۔۔

کی گردان چل رہی تھی ۔ اے اللہ ! تو معاف کرنے والا ہے ، معاف کرنے کو پسند کرتا ہے ، ہمیں معاف فرما دے۔ اے اللہ ! ہماری مغفرت فرما! ہم پر رحم فرما! اور ہمیں جہنم کی آگ سے آزادی عطا فرما۔ آمین۔

روزانہ صبح فجر کی نماز کے بعد مسجد کے پیش امام صاحب ایک مختصر سی حدیث مبارکہ اور اس کا ترجمہ و تشریح بیان فرماتے ۔ حسب معمول اس روز بھی ایک حدیث مبارکہ بیان فرمائی۔ بشارت نہ کہئے تو اور کیا کہئے ؟ زبان تو بے شک امام صاحب کی تھی لیکن کلام کس کا تھا؟ الصادق و المصدق ﷺ کا! البشیر ﷺ کا! یقیناً آپ ﷺ کُلُّ نفسٍ ذآئقَۃُ المَوت کے اٹل قانون کے تحت دار لفنا سے دار البقا کو ہجرت فرما گئے لیکن ۔۔۔ لاریب کہ آپ ﷺ کا کلام آج بھی زندہ ہے اور قیامت تک کے لئے زندہ رہے گا۔ بشارت نہ کہئے تو اور کیا کہئے ؟ کہ حالات و واقعات کی ترتیب اور ٹائمنگ ہی کچھ ایسی تھی ۔ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ۔۔۔ جہنم سے نجات کا عشرہ ۔۔۔ رحمت الٰہی جوش میں ہے ۔ مغفرت کے فیصلے ہو رہے ہیں۔ بخشش کے بہانے ڈھونڈے جا رہے ہیں۔ ایک ایک رات میں ہزاروں کو جہنم سے آزادی کے پروانے عطا ہو رہے ہیں۔ اعلانات ہو رہے ہیں ۔۔۔

اِنَّ رَبَّکَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَۃ ۔۔۔

بے شک تمہارا رب بڑی بخشش والا ہے۔

ہے کوئی طلبگار؟

اعلانات ہو رہے ہیں۔۔۔

ھل مِن تائِبٍ فَاَتوبَ عَلیہ ؟

ہے کوئی توبہ کرنے والا کہ اس کی توبہ قبول کروں؟

ھل مِن مُستَغفِراٍ فَاَغفِرَ لَہ’ ؟

ہے کوئی مغفرت کا طلبگار کہ اسے بخش دوں؟

رات کی تاریکی میں ایک بندہ اپنے رب کی بارگاہ میں لبوں کو جنبش دیئے بغیر سرگوشیاں کرتا ہے ، دل ہی دل میں راز و نیاز کرتا ہے ، اور وہ ذات جو

یَعْلَمُ خَآئِنَۃَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْر

ہے ۔۔۔ یعنی آنکھوں کی خیانت اور سینوں میں پوشیدہ رازوں سے بھی واقف ہے، سب سن لیتی ہے اور صبح کو یہ مژدہ سنائی دے جاتا ہے ۔ امام صاحب نے حدیث مبارکہ پڑھی ۔ اس کے چشم تصور میں ایک منظر ابھرا۔ خدا کرے کہ اس جسارت کو گستاخی و بے ادبی پر محمول نہ کیا جائے ۔۔۔اس کے چشم تصور میں ایک منظر ابھرا۔۔۔ کہ جیسے اس رحیم و کریم ذات نے اپنے ایک گناہگار بندے کی آہ و بکا کو سند قبولیت عطا فرماتے ہوئے اپنے نبی ﷺ سے کہا ہو کہ اے میرے محبوب! میرے بندوں کو اپنی زبان مبارک سے خوشخبری سنا دیجئے کہ ۔۔۔

اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَّا ذَنْبَ لَہ’

یعنی گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہے گویا اس نے گناہ کا ارتکاب ہی نہیں کیا۔

بھلا کیا نام دیا جائے اس شب کو جس میں ایک بندۂ عاصی کی ایسی قدر افزائی ہوئی ۔۔۔

قدر کی رات؟

لیلۃ القدر؟

July 2, 2013

Qaid Khana


قید خانہ

از۔۔۔ ابو شہیر

یہ 2009 ء کی بات ہے کہ پاکستان سے کچھ زائرین زیارت بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کی غرض سے حجاز مقدس پہنچے۔ جدہ ایئر پورٹ پر ان کی تلاشی لی گئی تو ان کے پاس سے منشیات کے پیکٹ برآمد ہوئے جو کہ کمال ہوشیاری سے ان کی چپلوں کے اندر چھپائے گئے تھے ۔ ان زائرین میں ایک نوبیاہتا جوڑا بھی تھا جو کہ اپنی ازدواجی زندگی کا آغاز اس مبارک سفر سے کر رہا تھا ۔ زیارت بیت اللہ کے پر کیف تصورات میں ڈوبے اس جوڑے کو اندازہ ہی نہ تھا کہ ان کے ساتھ اس سفر میں کیا ہونے والا ہے۔ چنانچہ جدہ ایئر پورٹ پر سعودی قوانین کے مطابق منشیات برآمد کرنے کے جرم میں انہیں فوری طور پر گرفتار کر لیا گیا ۔ اور پھر تفتیش کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا  جو کہ عرصہ چار ماہ پر محیط ہے ۔

تحقیقات کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ چپل میں منشیات چھپانے کے مذموم فعل میں ٹریول ایجنٹ ملوث تھا اور زائرین قطعی بے قصور تھے ۔ چنانچہ پورے ملک کے عوام ان کے حق میں دعائیں کرنے لگے ۔ رمضان المبارک میں مساجد میں خصوصی دعائیں ہوئیں۔مساجد  میں بیٹھے معتکفین نے ان زائرین کے حق میں دست دعا بلند کیا ۔ یہاں تک کہ عوام نے منتیں مان لیں کہ یہ زائرین بخیر و عافیت واپس آ گئے تو ہم یہ کریں گے  ، ہم وہ کریں گے۔

نوبیاہتا جوڑے کی تربیت چونکہ دینی ماحول میں ہوئی تھی چنانچہ ادھر قید خانہ میں وہ بھی صرف ذات باری تعالیٰ ہی کی جانب متوجہ اور مناجات میں مشغول رہا ۔دل میں یہ یقین بسا ہوا تھا کہ ہم تو اللہ کے مہمان بن کر آئے ہیں۔ اور فقط بیت اللہ اور روضہ رسول ﷺ کی زیارت مقصود تھی ۔  نہ تو ہم نے کوئی غلط کام کیا نہ ہی ایسی کوئی نیت تھی ۔ تو اللہ ہمارے لئے کافی ہے ۔

بالآخر حکومتی سطح پر اس کیس کا نوٹس لیا گیا اور پاکستان اور سعودی وزرائے داخلہ کے درمیان مذاکرات ہوئے ۔ سعودی حکام بھی تحقیقات کے بعد اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ ملزمان بے قصور ہیں اور انہیں جعلسازی کے ذریعے پھنسایا گیا ہے ۔ چنانچہ وہ ساعت سعید آن پہنچی کہ جس کا اہل خانہ و اہل وطن کو انتظار تھااور سعودی وزیر داخلہ نے ان کی رہائی کے احکامات جاری فرمائے ۔

اس اعلان کے ساتھ ہی ان ملزمان کی حیثیت تبدیل ہو گئی اور اب انہیں شاہی مہمان کا درجہ حاصل ہو گیا ۔ نہایت اعزاز و تکریم کے ساتھ انہیں جیل سے نکالا گیا اور حرم مکی کے نہایت قریب ایک نہایت پر آسائش ہوٹل میں ان کی رہائش کا انتظام کیا گیا ۔ ہوٹل کی اس پوری منزل پر فقط یہی لوگ قیام پزیر تھے۔ سترہ فوجی افسران ان کی حفاظت پر مامور کئے گئے ۔ اگلے روز عمرہ کی ادائیگی اس شان سے کرائی گئی کہ فوجی افسران کےپہرے میں بیت اللہ کی دیوار کے بالکل ساتھ انہیں طواف کرایا گیا ۔ عمرہ کی ادائیگی کے بعد اگلی خواہش پوچھی گئی تو انہوں نے آقائے نامدار سرور کونین ﷺ کی خدمت اقدس میں درود و سلام کا نذرانہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کرنے کے واسطے مدینہ منورہ جانے کی خواہش ظاہر کی ۔

چنانچہ انتہائی جدید اور شاندار گاڑیوں کا پورا بیڑہ ان مہمانوں کو مکہ مکرمہ سے لے کر مدینہ منورہ روانہ ہوا ۔ جہاں ان کو روضہ مبارک پر حاضری کے علاوہ وہ مخصوص زیارات بھی کروائی گئیں جن کا عام عازمین حج و عمرہ محض تصور ہی کر سکتے ہیں۔ پھر دوبارہ ان کو مکہ مکرمہ لایا گیا جہاں انہوں نے اسی شان سے ایک اور عمرہ ادا کیا۔ پھر ان کو بازار لے جایا گیا کہ کچھ شاپنگ کر لیجئے۔ انہوں نے لاکھ بچنا چاہا کہ جی ہمیں کوئی حاجت نہیں لیکن ادھر سرکاری حکام کا اصرار کہ آپ ازراہ کرم کچھ شاپنگ کر لیں ورنہ ہماری کھنچائی ہو جائے گی ۔ چنانچہ انہوں نے کچھ شاپنگ کی ۔ پھر واپسی کا سفر شروع ہوا تو ایئر پورٹ پر اعلیٰ سعودی حکام انہیں رخصت کرنے کے لئے موجود تھے جہاں انہیں خصوصی طیارے میں سوار کرایا گیا ۔ تحائف پیش کئے گئے جن میں آب زم زم اور انتہائی اعلیٰ قسم کی عجوہ کھجوروں کی وافر مقدار شامل تھی۔

پھر جس وقت یہ عمرہ زائرین اسلام آباد کے چکلالہ ایئر بیس پر اترے تو اعلیٰ پاکستانی حکام نے ان کا استقبال کیا ۔ ادھر ان کے والدین اور اہل خانہ کو بھی کراچی سے اسلام آباد لایا جا چکا تھا ۔ ایئر پورٹ پر والدین ، اہل خانہ اور اعلیٰ حکام سے ملاقات کے بعد مسلح پہرے داروں کے جلو میں ان کو قافلے کی شکل میں وزیر اعظم ہاؤس لے جایا گیا اور وزیر اعظم پاکستان سے ان کی ملاقات کرائی گئی ۔ خاطر مدارات کی گئی ، تحائف پیش کئے گئے ۔

یہاں سے رخصت ہونے کے بعد اس قافلے کی اگلی منزل ایوان صدر تھی ۔ جہاں صدر پاکستان نے ان سے ملاقات کی اور مبارکباد دی ۔ ایوان صدر میں بھی تواضع کی گئی اور صدر پاکستان کی جانب سے تحائف پیش کئے گئے۔ نیز صدر پاکستان نے ان سے ان کے روزگار کے حوالے سے بھی معلومات کی اور ان کے لئے مختلف سرکاری اداروں میں تقرری کے احکامات جاری کئے ۔

صدر پاکستان سے ملاقات کے بعد ان عمرہ زائرین کو بمعہ اہل خانہ پاک فضائیہ کے خصوصی طیارے کے ذریعہ کراچی لایا گیا جہاں ان کے استقبال کے لئے وزیر اعلیٰ سندھ اور دیگر اعلیٰ حکام موجود تھے ۔ جنہوں نے ان کو مبارکباد دینے کے بعد بحفاظت ان کے گھروں تک پہنچانے کے احکامات جاری کئے اور یوں مسلح پہرے داروں کی حفاظت میں یہ لوگ بالآخر اپنے گھر پہنچے۔

یہ ساری روداد ہمیں رئیس احمد صاحب نے سنائی جن کی بیٹی اور داماد کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا ۔ رئیس بھائی یہ روداد سنا رہے تھے اور ہمارے ذہن میں یوم محشر کے مناظر کا تصور ابھر رہا تھا ۔

سورۃ الحآقۃ میں اللہ تعالیٰ نے یوم محشر کا منظر اس طرح بیان فرمایا ہے۔

فَأَمَّا مَنۡ أُوتِىَ كِتَـٰبَهُ ۥ بِيَمِينِهِۦ فَيَقُولُ هَآؤُمُ ٱقۡرَءُواْ كِتَـٰبِيَهۡ (١٩) إِنِّى ظَنَنتُ أَنِّى مُلَـٰقٍ حِسَابِيَهۡ (٢٠) فَهُوَ فِى عِيشَةٍ۬ رَّاضِيَةٍ۬ (٢١) فِى جَنَّةٍ عَالِيَةٍ۬ (٢٢) قُطُوفُهَا دَانِيَةٌ۬ (٢٣) كُلُواْ وَٱشۡرَبُواْ هَنِيٓـَٔۢا بِمَآ أَسۡلَفۡتُمۡ فِى ٱلۡأَيَّامِ ٱلۡخَالِيَةِ (٢٤)

تو جس کا (اعمال) نامہ اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ (دوسروں سے) کہے گا کہ لیجیئے میرا نامہ (اعمال) پڑھیئے (۱۹) مجھے یقین تھا کہ مجھ کو میرا حساب (کتاب) ضرور ملے گا (۲۰) پس وہ (شخص) من مانے عیش میں ہوگا (۲۱) (یعنی) اونچے (اونچے محلوں) کے باغ میں (۲۲)جن کے میوے جھکے ہوئے ہوں گے (۲۳) جو (عمل) تم ایام گزشتہ میں آگے بھیج چکے ہو اس کے صلے میں مزے سے کھاؤ اور پیو (۲۴)

یہ گویا ایک اعلان ہو گا بارگاہ الٰہی سے کہ فلاں شخص بے گناہ ہے ، اس کو باعزت بری کر دیا جائے ۔ اس اعلان کے ہوتے ہی اس شخص کو شاہی مہمان کا درجہ مل جائے گا۔ اسے شاہی مہمان خانے میں ٹھہرایا جائے گا جہاں وہ اس عیش و آرام میں ہوگا جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ سورۃ الدھر میں اس مہمان نوازی کا نقشہ یوں بیان کیا گیا ہے۔

فَوَقَٮٰهُمُ ٱللَّهُ شَرَّ ذَٲلِكَ ٱلۡيَوۡمِ وَلَقَّٮٰهُمۡ نَضۡرَةً۬ وَسُرُورً۬ا (١١) وَجَزَٮٰهُم بِمَا صَبَرُواْ جَنَّةً۬ وَحَرِيرً۬ا (١٢) مُّتَّكِـِٔينَ فِيہَا عَلَى ٱلۡأَرَآٮِٕكِ‌ۖ لَا يَرَوۡنَ فِيہَا شَمۡسً۬ا وَلَا زَمۡهَرِيرً۬ا (١٣) وَدَانِيَةً عَلَيۡہِمۡ ظِلَـٰلُهَا وَذُلِّلَتۡ قُطُوفُهَا تَذۡلِيلاً۬ (١٤) وَيُطَافُ عَلَيۡہِم بِـَٔانِيَةٍ۬ مِّن فِضَّةٍ۬ وَأَكۡوَابٍ۬ كَانَتۡ قَوَارِيرَا۟ (١٥) قَوَارِيرَاْ مِن فِضَّةٍ۬ قَدَّرُوهَا تَقۡدِيرً۬ا (١٦) وَيُسۡقَوۡنَ فِيہَا كَأۡسً۬ا كَانَ مِزَاجُهَا زَنجَبِيلاً (١٧) عَيۡنً۬ا فِيہَا تُسَمَّىٰ سَلۡسَبِيلاً۬ (١٨) ۞ وَيَطُوفُ عَلَيۡہِمۡ وِلۡدَٲنٌ۬ مُّخَلَّدُونَ إِذَا رَأَيۡتَہُمۡ حَسِبۡتَہُمۡ لُؤۡلُؤً۬ا مَّنثُورً۬ا (١٩) وَإِذَا رَأَيۡتَ ثَمَّ رَأَيۡتَ نَعِيمً۬ا وَمُلۡكً۬ا كَبِيرًا (٢٠)عَـٰلِيَہُمۡ ثِيَابُ سُندُسٍ خُضۡرٌ۬ وَإِسۡتَبۡرَقٌ۬‌ۖ وَحُلُّوٓاْ أَسَاوِرَ مِن فِضَّةٍ۬

تو خدا ان کو اس دن کی سختی سے بچالے گا اور تازگی اور خوش دلی عنایت فرمائے گا (۱۱) اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت (کے باغات) اور ریشم (کے ملبوسات) عطا کرے گا (۱۲) ان میں وہ تختوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے۔ وہاں نہ دھوپ (کی حدت) دیکھیں گے نہ سردی کی شدت (۱۳) ان سے (ثمردار شاخیں اور) ان کے سائے قریب ہوں گے اور میوؤں کے گچھے جھکے ہوئے لٹک رہے ہوں گے (۱۴) خدام) چاندی کے باسن لئے ہوئے ان کے اردگرد پھریں گے اور شیشے کے (نہایت شفاف) گلاس (۱۵) اور شیشے بھی چاندی کے جو ٹھیک اندازے کے مطابق بنائے گئے ہیں (۱۶) اور وہاں ان کو ایسی شراب (بھی) پلائی جائے گی جس میں سونٹھ کی آمیزش ہوگی (۱۷) یہ بہشت میں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل ہے (۱۸) اور ان کے پاس لڑکے آتے جاتے ہوں گے جو ہمیشہ (ایک ہی حالت پر) رہیں گے۔ جب تم ان پر نگاہ ڈالو تو خیال کرو کہ بکھرے ہوئے موتی ہیں (۱۹) اور بہشت میں (جہاں) آنکھ اٹھاؤ گے کثرت سے نعمت اور عظیم (الشان) سلطنت دیکھو گے (۲۰)ان (کے بدنوں) پر دیبا سبز اور اطلس کے کپڑے ہوں گے۔ اور انہیں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے …

اس کے بعد اعلیٰ شخصیات یعنی انبیائے کرام علیہم السلام اور صحابہ کرام ؓ سے ملاقاتیں ، ساقیٔ کوثر ﷺ کی زیارت ، اور آپ ﷺ کے دست مبارک سے جام کوثر پیش کئے جانے کا اعزاز، اور پھر صدر کائنات اللہ رب العزت کا دیدار اور دست الٰہی سے شراب طہور پیش کئے جانے کا اعزاز۔۔۔ اللہ اکبر۔

وَسَقَٮٰهُمۡ رَبُّہُمۡ شَرَابً۬ا طَهُورًا (٢١) إِنَّ هَـٰذَا كَانَ لَكُمۡ جَزَآءً۬ وَكَانَ سَعۡيُكُم مَّشۡكُورًا (٢٢)

اور ان کا پروردگار ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا (۲۱)یہ تمہارا صلہ اور تمہاری کوشش (خدا کے ہاں) مقبول ہوئی (۲۲)

بس ایک بے گناہی ثابت کرنی ہے ۔ اور یہ اسی وقت ثابت ہو سکے گی جبکہ دنیوی زندگی گناہوں سے بچ بچ کر گزاری جائے ۔

حدیث مبارکہ ہے:

“اَلْکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَه’ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْت، وَ الْعَاجِزُ مَنْ اَتْبَعَ هَوَاهَا وَ تَمَنّیٰ علی اللہ.” (الترمذی)

“عقلمند وه ہے جو اپنے نفس کو قابو میں رکهے اور موت کے بعد کی زندگی کے لئےعمل کرے … اور نادان وه ہے جو اپنی خواہشِ نفس کی پیروی کرے اور اس کے باوجود الله سے امیدیں باندهتا رہے.”

اور ایک اور حدیث مبارکہ ہے:

الدنیا سجن المؤمن و جنۃ الکافر

دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے اور کافر کے لئے جنت۔

قید خانے میں بھلا اپنی مرضی کہاں چلتی ہے! سو اگر ہم بھی اس دنیاوی زندگی کو ایسے گذار پائیں جیسے اللہ کے ان دو بندوں نے اپنی قید کے دن گذارے، تو ان شاء اللہ آخرت میں عیش ہی عیش، مزے ہی مزے۔

Create a free website or blog at WordPress.com.