Sirat e Mustqeem

October 16, 2015

Zan Mureed


پہلی مرتبہ وہ مجھے جمرات پر نظر آئے۔ مناسب قد و قامت کے حامل تھے۔ چہرے پہ سجی سفید داڑھی نہایت بھلی معلوم ہو رہی تھی۔ بڑے جذبے سے کنکریاں مار رہے تھے۔ سات کنکریاں مار چکے تو پھر سات اور ماریں۔ خیال ہوا کہ شاید کسی اور نے اپنی رمی کرنے کے لئے وکیل بنایا ہو گا۔  پھر قربان گاہ میں دیکھا تو یکے بعد دیگرے دو دنبے ذبح کئے۔ ظاہر ہے قربانی کے لئے بھی بہت سے لوگ ذمہ داری لے لیتے ہیں، سو اس میں بھی کوئی غیر معمولی بات نہ لگی۔  اگلے روز طواف وداع کے لئے حرم پہنچا توطواف کے آغاز پر پھر وہ نظر آئے۔ میں طواف شروع کر رہا تھا اور وہ طواف مکمل کر کے ہجوم سے باہر نکل رہے تھے۔ لیکن پھر انہیں دوبارہ طواف کرتے ہوئے پایا۔ سخت تعجب ہوا کہ اس قدر ہجوم میں ایک ہی طواف کرنا مشکل ہو رہا تھا  اور یہ حضرت دوسرا طواف کرنےلگ گئے۔  بعد ازاں صفا مروہ کی سعی کے دوران پھر ان پر نگاہ پڑی ۔ مروہ پر سعی مکمل کر کے میں چپل اٹھانے  کی غرض سے صفا پر پہنچا تو انہیں ایک بار پھر سعی کی نیت کرتے اور پھر صفا سے مروہ کی جانب چلتے دیکھا۔ اب تو سخت حیرت ہوئی کہ حضرت ہر عمل دو دو بار کر رہے ہیں۔ خیال ہوا کہ پوچھنا چاہئے لیکن اس قدر ہجوم میں کہاں موقع تھا ان باتوں کا۔ سو اپنی راہ لی۔ لیکن ایک کھٹک سی دل میں برقرار رہی۔

حج کے بعد ایک روز میں ناشتے کی غرض سے بقالے کی جانب جا رہا تھا کہ وہ گلی میں داخل ہوتے نظر آئے۔ سلام دعا کے بعد باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ قریبی عمارت میں ہی رہائش پزیر ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ سے کچھ باتیں دریافت کرنا چاہتا ہوں۔  کہنے لگے : چلئے میاں ! ہمارے کمرے میں آ جائیے۔ ناشتہ ساتھ ہی کرتے ہیں۔ چنانچہ ان کے کمرے میں جا پہنچا۔ کمرے میں دو بستر پڑے تھے۔ اور باقی سامان سلیقے سے رکھا ہوا تھا۔

ناشتے کے دوران کچھ ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ پھر انہوں نے کہا: میاں پوچھئے کیا پوچھنا چاہ رہے تھےآپ ؟عرض کی : حضرت ! حج کے ارکان کی ادائیگی کے دوران آپ  مجھے جا بجا نظر آئے۔ آپ کو ہر عمل دو دو بار کرتے دیکھا۔ بس یہی بات کھٹک رہی تھی ۔ اگر مناسب سمجھیں تو وجہ بتا دیجئے۔ سوال سن کر وہ ٹھٹک کر رہ گئے۔ پھر ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ مجھے سخت افسوس ہوا کہ ناحق ان کو دکھی کر دیا۔ معذرت کرنےلگا ۔ کہنے لگے: نہیں میاں ! معذرت کیسی؟  بتائے دیتے ہیں آپ کو۔ شاید کچھ دل کا بار کم ہو جائے۔ پھر رومال سے آنکھیں پونچھ کے آہستہ آہستہ بتانے لگے:

میاں کیا بتائیں؟ بیگم کو حج کی شدید آرزو تھی۔ چھ ماہ پہلے کی بات ہے جب حج فارم جمع ہونے کی تاریخوں کا اعلان ہوا تو پیچھے لگ گئی کہ اس بار ہم بھی فارم بھر دیں۔ ہم نے کہا کہ بھئی ابھی وقت مناسب نہیں معلوم ہوتا ۔ بچیاں شادی کی عمر کو پہنچ گئی ہیں۔ رقم پس انداز کرنی شروع کر دینی چاہئے۔ آخر کو ان کی شادیاں کرنی ہیں۔لگی حدیثیں سنانے۔ کہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا کہ حج فرض ہو جانے کے بعد حج کی ادائیگی میں جلدی کرنی چاہئے کہ جانے کب کیا رکاوٹ پیش آ جائے۔ پھر دوسری حدیث یہ سنا دی کہ جو حج کی ادائیگی کی قدرت رکھنے کے باوجود حج نہ کرے تو وہ چاہے یہودی ہو کے مرے یا نصرانی۔ پھر تیسری حدیث کہ حج مبرور کا بدلہ جنت کے سوا کچھ نہیں۔ پھر ایک دلیل یہ دی کہ پہلے کوئی کام رکا ہے ہمارا جو آئندہ رکے گا؟ جب جس چیز کی ضرورت پڑی، اللہ نے اپنے فضل سے پوری کر دی۔ آئندہ بھی کر دے گا۔ تو میاں سمجھو یوں حج کا فارم جمع کرا دیا۔ اور پھر یہاں چلے آئے۔

میاں مت پوچھو کہ بیت اللہ پر پہلی نگاہ پڑی تو کیا حالت ہوئی۔ کیسا سرور ملا۔ جھوم کے کہا :بیگم !اس ایک نگاہ میں ہی سارے پیسے وصول ہو گئے۔ عمرہ ادا کیا تو نشاط طاری ہو گیا۔ یہی خیال آتا رہا کہ عمرہ میں اتنی لذت ہے تو حج کیا ہو گا؟ حج کے انتظار کے دنوں میں طواف اور نماز کے لئے بیت اللہ کے چکر لگتے رہے ۔ اس دوران سرکار ﷺ کے دربار میں حاضری کا موقع بھی ملا۔ دیار نبی ﷺ سے فیض پا کر مکہ لوٹے تو مزید ایک عمرہ کا موقع ملا۔ ہر لمحہ اللہ کی رحمت کا ہالہ اپنے گردا گرد محسوس ہوتا تھا۔ میاں دعائیں تو یوں قبول ہو رہی تھیں گویا اللہ انتظار میں بیٹھا ہو کہ بندے کے منہ سے کوئی سوال نکلے اور وہ پورا کرے۔ اللہ اکبر۔ بھئی یقین مانو اسی کا ظرف ہے ورنہ کہاں ہم سا گنہگار کہ حج ایسے فریضے کی ادائیگی کی فکر کرنے کے بجائے ٹال مٹول اور بہانے بازیاں ، اور کہاں اس کا کرم۔ چاہتا تو وہ بھی ہماری دعاؤں کو ٹال دیتا ۔ لیکن نہیں میاں۔ بلا بھی لیا اور مان بھی گیا۔

دن یونہی مزے میں گزر رہے تھے۔ حج قریب آتا جا رہا تھا۔ وہ جمعہ کی شام تھی۔ آسمان پر کالے بادل گھر گھر کے آنے لگے ۔ پھر باران رحمت کا نزول ہوا۔ شدید بارش ہوئی۔ ہم  اور ہماری بیگم حرم کے بیرونی صحن میں تھے۔ لمحوں میں کپڑے تر بتر ہو گئے ۔ طے ہوا واپس رہائش گاہ پر چلا جائے۔ دو چار قدم چلے تھے کہ ہمیں خیال آیا کہ پانی کے تھرماس میں زم زم ختم ہو چکاہے۔ بیگم سے ذکر کیا تو جھٹ سے بولی : آپ ٹھہریں ۔ میں بھر کے لاتی ہوں۔ اور پاس ہی موجود زم زم کی ٹنکی کی جانب دوڑ پڑی۔ چند قدم ہی آگے بڑھی ہو گی کہ ایک دھماکہ ہوا اور اوپر سے ٹنوں وزنی کرین آ گری۔  میاں بس مت پوچھو آن کی آن میں کیا ہو گیا۔ ان کی آواز بیٹھتی چلی گئی۔میری بھی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وہ حادثہ تھا ہی اتنا اندوہناک ۔ ایک لمحہ میں بیسیوں حاجی شہید ہو گئے تھے۔ اور بے شمار زخمی۔ حرم کا مرمریں صحن سرخ ہو گیا تھا۔ تعزیت کرنی چاہی لیکن الفاظ گویا حلق میں پھنس کر رہ گئے۔

کچھ دیر سکوت کے بعد انہوں نے ہی خاموشی توڑی: میاں! کیا بتاؤں کتنی خوبیاں تھیں اس میں۔ نہایت صابر شاکر ۔ وفا شعار ۔ سلیقہ مند۔ اللہ کی رضا میں راضی۔ بھاگ بھاگ کے ہماری خدمتیں کیا کرتی تھی۔ ہماری مرضی پہ اپنی مرضی کو قربان کر دیا۔ اپنی پسند نا پسند کوہماری پسند نا پسند کے مطابق ڈھال لیا۔ ہر خوشی غمی ، تنگی و وسعت  ، دکھ بیماری میں ہمارے شانہ بشانہ۔ وہ کہتی تھی کہ عورت کا مرد کے شانہ بشانہ چلنے کا اصل اور پسندیدہ طریقہ اس کی نظر میں یہی ہے۔

میاں ! نکاح میں قبول ہے کہا نا ۔۔۔ تو پھر ہر طرح سے ہمیں قبول کر کے دکھایا۔ ہماری جھڑکیاں اور نخرے برداشت کئے ۔ کبھی شکوہ نہ کیا۔ وقت بے وقت کی فرمائشیں پوری کیں۔ سفر حج کے سامان کی پیکنگ کے وقت ہماری ضرورت کی تمام اشیاء خود ہی جمع کر کے رکھیں۔ کپڑوں سے لے کر سیفٹی پن تک، اور عینک سے لے کر دواؤں تک ہر چیز کی موجودگی کو یقینی بنایا۔  تربیتی نشستوں میں باقاعدگی سے شرکت کا اہتمام کیا۔

اور یہاں آ کے تو وہ گویا بچھی ہی چلی جا رہی تھی۔ ہل کے پانی تک نہ پینے دیتی ہمیں۔ حرم میں حاضری کے بعد تھک ہار کر واپس آتے تو خود باوجود تھکان کے ہمارے پیر دبانے لگ جاتی۔ ہم روکتے تو کہتی کہ پہلے تو آپ صرف شوہر تھے، اب تو اللہ کے مہمان بھی ہیں۔ اللہ کے مہمان کی خدمت کرنے دیجئے۔ کبھی کبھی احساس تشکر سے بھیگی آنکھیں لئے ہمارے ہاتھ پکڑ کر کہتی کہ آپ نے مجھے اللہ کا گھر دکھا دیا۔ حالانکہ درحقیقت وہ ہمیں لے کر آئی تھی۔ ہاہ !وہ صرف ہماری دنیا ہی کے نہیں، آخرت کے بارے میں بھی فکر مند رہا کرتی تھی۔ میاں اللہ والی تھی ۔۔۔ بڑی اللہ والی۔ جبھی تو اللہ نے اسے پاک صاف کر کے اپنے پاس بلا لیا۔ شہادت کی موت عطا فرما دی۔ سیدہ خدیجہؓ کے قدموں میں جگہ عطا فرما دی۔ میاں اندازہ کرو کہ اس کی طلب کتنی سچی اور دھن کتنی پکی تھی! کیسے بلند درجات پا لئے۔ بچوں کی بھی ایسی تربیت کی کہ جب بچوں کو اس کی شہادت کی اطلاع دی تو وہ الٹا  ہمیں ہی صبر کی تلقین کرنے لگے۔ سچ فرمایا سرکار ﷺ نے کہ دنیا کی بہترین نعمت  نیک بیوی ہے۔ اس نیک بخت نے خدمتیں کر کر کے ہمیں اپنا مرید بنا لیا تھا۔

میاں حج پر ہر ہر رکن کی ادائیگی کے دوران اس کی کمی محسوس ہوئی ۔ سو اس کی طرف سے بھی رمی، قربانی، طواف وداع اور سعی کر دی ۔۔۔ بس یونہی اپنے دل کے بہلاوے کو۔۔۔  کہ ہم نے قدم قدم پر خود کو اس کی محبتوں اور وفاؤں کا مقروض پایا۔

سارے خاندان والے ہمیں زن مرید کہتے ہیں۔

چاہو تو تم بھی کہہ لو!

July 2, 2013

Qaid Khana


قید خانہ

از۔۔۔ ابو شہیر

یہ 2009 ء کی بات ہے کہ پاکستان سے کچھ زائرین زیارت بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کی غرض سے حجاز مقدس پہنچے۔ جدہ ایئر پورٹ پر ان کی تلاشی لی گئی تو ان کے پاس سے منشیات کے پیکٹ برآمد ہوئے جو کہ کمال ہوشیاری سے ان کی چپلوں کے اندر چھپائے گئے تھے ۔ ان زائرین میں ایک نوبیاہتا جوڑا بھی تھا جو کہ اپنی ازدواجی زندگی کا آغاز اس مبارک سفر سے کر رہا تھا ۔ زیارت بیت اللہ کے پر کیف تصورات میں ڈوبے اس جوڑے کو اندازہ ہی نہ تھا کہ ان کے ساتھ اس سفر میں کیا ہونے والا ہے۔ چنانچہ جدہ ایئر پورٹ پر سعودی قوانین کے مطابق منشیات برآمد کرنے کے جرم میں انہیں فوری طور پر گرفتار کر لیا گیا ۔ اور پھر تفتیش کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا  جو کہ عرصہ چار ماہ پر محیط ہے ۔

تحقیقات کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ چپل میں منشیات چھپانے کے مذموم فعل میں ٹریول ایجنٹ ملوث تھا اور زائرین قطعی بے قصور تھے ۔ چنانچہ پورے ملک کے عوام ان کے حق میں دعائیں کرنے لگے ۔ رمضان المبارک میں مساجد میں خصوصی دعائیں ہوئیں۔مساجد  میں بیٹھے معتکفین نے ان زائرین کے حق میں دست دعا بلند کیا ۔ یہاں تک کہ عوام نے منتیں مان لیں کہ یہ زائرین بخیر و عافیت واپس آ گئے تو ہم یہ کریں گے  ، ہم وہ کریں گے۔

نوبیاہتا جوڑے کی تربیت چونکہ دینی ماحول میں ہوئی تھی چنانچہ ادھر قید خانہ میں وہ بھی صرف ذات باری تعالیٰ ہی کی جانب متوجہ اور مناجات میں مشغول رہا ۔دل میں یہ یقین بسا ہوا تھا کہ ہم تو اللہ کے مہمان بن کر آئے ہیں۔ اور فقط بیت اللہ اور روضہ رسول ﷺ کی زیارت مقصود تھی ۔  نہ تو ہم نے کوئی غلط کام کیا نہ ہی ایسی کوئی نیت تھی ۔ تو اللہ ہمارے لئے کافی ہے ۔

بالآخر حکومتی سطح پر اس کیس کا نوٹس لیا گیا اور پاکستان اور سعودی وزرائے داخلہ کے درمیان مذاکرات ہوئے ۔ سعودی حکام بھی تحقیقات کے بعد اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ ملزمان بے قصور ہیں اور انہیں جعلسازی کے ذریعے پھنسایا گیا ہے ۔ چنانچہ وہ ساعت سعید آن پہنچی کہ جس کا اہل خانہ و اہل وطن کو انتظار تھااور سعودی وزیر داخلہ نے ان کی رہائی کے احکامات جاری فرمائے ۔

اس اعلان کے ساتھ ہی ان ملزمان کی حیثیت تبدیل ہو گئی اور اب انہیں شاہی مہمان کا درجہ حاصل ہو گیا ۔ نہایت اعزاز و تکریم کے ساتھ انہیں جیل سے نکالا گیا اور حرم مکی کے نہایت قریب ایک نہایت پر آسائش ہوٹل میں ان کی رہائش کا انتظام کیا گیا ۔ ہوٹل کی اس پوری منزل پر فقط یہی لوگ قیام پزیر تھے۔ سترہ فوجی افسران ان کی حفاظت پر مامور کئے گئے ۔ اگلے روز عمرہ کی ادائیگی اس شان سے کرائی گئی کہ فوجی افسران کےپہرے میں بیت اللہ کی دیوار کے بالکل ساتھ انہیں طواف کرایا گیا ۔ عمرہ کی ادائیگی کے بعد اگلی خواہش پوچھی گئی تو انہوں نے آقائے نامدار سرور کونین ﷺ کی خدمت اقدس میں درود و سلام کا نذرانہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کرنے کے واسطے مدینہ منورہ جانے کی خواہش ظاہر کی ۔

چنانچہ انتہائی جدید اور شاندار گاڑیوں کا پورا بیڑہ ان مہمانوں کو مکہ مکرمہ سے لے کر مدینہ منورہ روانہ ہوا ۔ جہاں ان کو روضہ مبارک پر حاضری کے علاوہ وہ مخصوص زیارات بھی کروائی گئیں جن کا عام عازمین حج و عمرہ محض تصور ہی کر سکتے ہیں۔ پھر دوبارہ ان کو مکہ مکرمہ لایا گیا جہاں انہوں نے اسی شان سے ایک اور عمرہ ادا کیا۔ پھر ان کو بازار لے جایا گیا کہ کچھ شاپنگ کر لیجئے۔ انہوں نے لاکھ بچنا چاہا کہ جی ہمیں کوئی حاجت نہیں لیکن ادھر سرکاری حکام کا اصرار کہ آپ ازراہ کرم کچھ شاپنگ کر لیں ورنہ ہماری کھنچائی ہو جائے گی ۔ چنانچہ انہوں نے کچھ شاپنگ کی ۔ پھر واپسی کا سفر شروع ہوا تو ایئر پورٹ پر اعلیٰ سعودی حکام انہیں رخصت کرنے کے لئے موجود تھے جہاں انہیں خصوصی طیارے میں سوار کرایا گیا ۔ تحائف پیش کئے گئے جن میں آب زم زم اور انتہائی اعلیٰ قسم کی عجوہ کھجوروں کی وافر مقدار شامل تھی۔

پھر جس وقت یہ عمرہ زائرین اسلام آباد کے چکلالہ ایئر بیس پر اترے تو اعلیٰ پاکستانی حکام نے ان کا استقبال کیا ۔ ادھر ان کے والدین اور اہل خانہ کو بھی کراچی سے اسلام آباد لایا جا چکا تھا ۔ ایئر پورٹ پر والدین ، اہل خانہ اور اعلیٰ حکام سے ملاقات کے بعد مسلح پہرے داروں کے جلو میں ان کو قافلے کی شکل میں وزیر اعظم ہاؤس لے جایا گیا اور وزیر اعظم پاکستان سے ان کی ملاقات کرائی گئی ۔ خاطر مدارات کی گئی ، تحائف پیش کئے گئے ۔

یہاں سے رخصت ہونے کے بعد اس قافلے کی اگلی منزل ایوان صدر تھی ۔ جہاں صدر پاکستان نے ان سے ملاقات کی اور مبارکباد دی ۔ ایوان صدر میں بھی تواضع کی گئی اور صدر پاکستان کی جانب سے تحائف پیش کئے گئے۔ نیز صدر پاکستان نے ان سے ان کے روزگار کے حوالے سے بھی معلومات کی اور ان کے لئے مختلف سرکاری اداروں میں تقرری کے احکامات جاری کئے ۔

صدر پاکستان سے ملاقات کے بعد ان عمرہ زائرین کو بمعہ اہل خانہ پاک فضائیہ کے خصوصی طیارے کے ذریعہ کراچی لایا گیا جہاں ان کے استقبال کے لئے وزیر اعلیٰ سندھ اور دیگر اعلیٰ حکام موجود تھے ۔ جنہوں نے ان کو مبارکباد دینے کے بعد بحفاظت ان کے گھروں تک پہنچانے کے احکامات جاری کئے اور یوں مسلح پہرے داروں کی حفاظت میں یہ لوگ بالآخر اپنے گھر پہنچے۔

یہ ساری روداد ہمیں رئیس احمد صاحب نے سنائی جن کی بیٹی اور داماد کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا ۔ رئیس بھائی یہ روداد سنا رہے تھے اور ہمارے ذہن میں یوم محشر کے مناظر کا تصور ابھر رہا تھا ۔

سورۃ الحآقۃ میں اللہ تعالیٰ نے یوم محشر کا منظر اس طرح بیان فرمایا ہے۔

فَأَمَّا مَنۡ أُوتِىَ كِتَـٰبَهُ ۥ بِيَمِينِهِۦ فَيَقُولُ هَآؤُمُ ٱقۡرَءُواْ كِتَـٰبِيَهۡ (١٩) إِنِّى ظَنَنتُ أَنِّى مُلَـٰقٍ حِسَابِيَهۡ (٢٠) فَهُوَ فِى عِيشَةٍ۬ رَّاضِيَةٍ۬ (٢١) فِى جَنَّةٍ عَالِيَةٍ۬ (٢٢) قُطُوفُهَا دَانِيَةٌ۬ (٢٣) كُلُواْ وَٱشۡرَبُواْ هَنِيٓـَٔۢا بِمَآ أَسۡلَفۡتُمۡ فِى ٱلۡأَيَّامِ ٱلۡخَالِيَةِ (٢٤)

تو جس کا (اعمال) نامہ اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ (دوسروں سے) کہے گا کہ لیجیئے میرا نامہ (اعمال) پڑھیئے (۱۹) مجھے یقین تھا کہ مجھ کو میرا حساب (کتاب) ضرور ملے گا (۲۰) پس وہ (شخص) من مانے عیش میں ہوگا (۲۱) (یعنی) اونچے (اونچے محلوں) کے باغ میں (۲۲)جن کے میوے جھکے ہوئے ہوں گے (۲۳) جو (عمل) تم ایام گزشتہ میں آگے بھیج چکے ہو اس کے صلے میں مزے سے کھاؤ اور پیو (۲۴)

یہ گویا ایک اعلان ہو گا بارگاہ الٰہی سے کہ فلاں شخص بے گناہ ہے ، اس کو باعزت بری کر دیا جائے ۔ اس اعلان کے ہوتے ہی اس شخص کو شاہی مہمان کا درجہ مل جائے گا۔ اسے شاہی مہمان خانے میں ٹھہرایا جائے گا جہاں وہ اس عیش و آرام میں ہوگا جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ سورۃ الدھر میں اس مہمان نوازی کا نقشہ یوں بیان کیا گیا ہے۔

فَوَقَٮٰهُمُ ٱللَّهُ شَرَّ ذَٲلِكَ ٱلۡيَوۡمِ وَلَقَّٮٰهُمۡ نَضۡرَةً۬ وَسُرُورً۬ا (١١) وَجَزَٮٰهُم بِمَا صَبَرُواْ جَنَّةً۬ وَحَرِيرً۬ا (١٢) مُّتَّكِـِٔينَ فِيہَا عَلَى ٱلۡأَرَآٮِٕكِ‌ۖ لَا يَرَوۡنَ فِيہَا شَمۡسً۬ا وَلَا زَمۡهَرِيرً۬ا (١٣) وَدَانِيَةً عَلَيۡہِمۡ ظِلَـٰلُهَا وَذُلِّلَتۡ قُطُوفُهَا تَذۡلِيلاً۬ (١٤) وَيُطَافُ عَلَيۡہِم بِـَٔانِيَةٍ۬ مِّن فِضَّةٍ۬ وَأَكۡوَابٍ۬ كَانَتۡ قَوَارِيرَا۟ (١٥) قَوَارِيرَاْ مِن فِضَّةٍ۬ قَدَّرُوهَا تَقۡدِيرً۬ا (١٦) وَيُسۡقَوۡنَ فِيہَا كَأۡسً۬ا كَانَ مِزَاجُهَا زَنجَبِيلاً (١٧) عَيۡنً۬ا فِيہَا تُسَمَّىٰ سَلۡسَبِيلاً۬ (١٨) ۞ وَيَطُوفُ عَلَيۡہِمۡ وِلۡدَٲنٌ۬ مُّخَلَّدُونَ إِذَا رَأَيۡتَہُمۡ حَسِبۡتَہُمۡ لُؤۡلُؤً۬ا مَّنثُورً۬ا (١٩) وَإِذَا رَأَيۡتَ ثَمَّ رَأَيۡتَ نَعِيمً۬ا وَمُلۡكً۬ا كَبِيرًا (٢٠)عَـٰلِيَہُمۡ ثِيَابُ سُندُسٍ خُضۡرٌ۬ وَإِسۡتَبۡرَقٌ۬‌ۖ وَحُلُّوٓاْ أَسَاوِرَ مِن فِضَّةٍ۬

تو خدا ان کو اس دن کی سختی سے بچالے گا اور تازگی اور خوش دلی عنایت فرمائے گا (۱۱) اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت (کے باغات) اور ریشم (کے ملبوسات) عطا کرے گا (۱۲) ان میں وہ تختوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے۔ وہاں نہ دھوپ (کی حدت) دیکھیں گے نہ سردی کی شدت (۱۳) ان سے (ثمردار شاخیں اور) ان کے سائے قریب ہوں گے اور میوؤں کے گچھے جھکے ہوئے لٹک رہے ہوں گے (۱۴) خدام) چاندی کے باسن لئے ہوئے ان کے اردگرد پھریں گے اور شیشے کے (نہایت شفاف) گلاس (۱۵) اور شیشے بھی چاندی کے جو ٹھیک اندازے کے مطابق بنائے گئے ہیں (۱۶) اور وہاں ان کو ایسی شراب (بھی) پلائی جائے گی جس میں سونٹھ کی آمیزش ہوگی (۱۷) یہ بہشت میں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل ہے (۱۸) اور ان کے پاس لڑکے آتے جاتے ہوں گے جو ہمیشہ (ایک ہی حالت پر) رہیں گے۔ جب تم ان پر نگاہ ڈالو تو خیال کرو کہ بکھرے ہوئے موتی ہیں (۱۹) اور بہشت میں (جہاں) آنکھ اٹھاؤ گے کثرت سے نعمت اور عظیم (الشان) سلطنت دیکھو گے (۲۰)ان (کے بدنوں) پر دیبا سبز اور اطلس کے کپڑے ہوں گے۔ اور انہیں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے …

اس کے بعد اعلیٰ شخصیات یعنی انبیائے کرام علیہم السلام اور صحابہ کرام ؓ سے ملاقاتیں ، ساقیٔ کوثر ﷺ کی زیارت ، اور آپ ﷺ کے دست مبارک سے جام کوثر پیش کئے جانے کا اعزاز، اور پھر صدر کائنات اللہ رب العزت کا دیدار اور دست الٰہی سے شراب طہور پیش کئے جانے کا اعزاز۔۔۔ اللہ اکبر۔

وَسَقَٮٰهُمۡ رَبُّہُمۡ شَرَابً۬ا طَهُورًا (٢١) إِنَّ هَـٰذَا كَانَ لَكُمۡ جَزَآءً۬ وَكَانَ سَعۡيُكُم مَّشۡكُورًا (٢٢)

اور ان کا پروردگار ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا (۲۱)یہ تمہارا صلہ اور تمہاری کوشش (خدا کے ہاں) مقبول ہوئی (۲۲)

بس ایک بے گناہی ثابت کرنی ہے ۔ اور یہ اسی وقت ثابت ہو سکے گی جبکہ دنیوی زندگی گناہوں سے بچ بچ کر گزاری جائے ۔

حدیث مبارکہ ہے:

“اَلْکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَه’ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْت، وَ الْعَاجِزُ مَنْ اَتْبَعَ هَوَاهَا وَ تَمَنّیٰ علی اللہ.” (الترمذی)

“عقلمند وه ہے جو اپنے نفس کو قابو میں رکهے اور موت کے بعد کی زندگی کے لئےعمل کرے … اور نادان وه ہے جو اپنی خواہشِ نفس کی پیروی کرے اور اس کے باوجود الله سے امیدیں باندهتا رہے.”

اور ایک اور حدیث مبارکہ ہے:

الدنیا سجن المؤمن و جنۃ الکافر

دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے اور کافر کے لئے جنت۔

قید خانے میں بھلا اپنی مرضی کہاں چلتی ہے! سو اگر ہم بھی اس دنیاوی زندگی کو ایسے گذار پائیں جیسے اللہ کے ان دو بندوں نے اپنی قید کے دن گذارے، تو ان شاء اللہ آخرت میں عیش ہی عیش، مزے ہی مزے۔

Create a free website or blog at WordPress.com.