Sirat e Mustqeem

July 15, 2013

ان سارے جزیروں کو کوئی کاش ملا دے


کیا وقت ہے یہ بھی!  ایسا لگتا ہے   پوری دنیا میں اگر کہیں خون بہہ رہا ہے تو وہ مسلمان کا  ہے۔  لگتا ہے زمین نے مسلمان خون کے علاوہ کچھ قبول کرنے سے انکار کر دیا  ہو۔ وہ برما ہو یا فلسطین۔ شام ہو یا  سوڈان۔ افغانستان، پاکستان، بنگلہ دیش ، بھارت،   کاشغر، ہر جگہ مرنے والا کلمہ توحید کا ماننے والا۔  کہیں ریاستی جبر ہے تو کہیں بیرونی۔ پھر بھی  تمام مسلمان حکومتیں ایک دوسرے کے حالات سے یا تو  لا تعلق نظر آتی ہیں جیسے  بنگلہ دیش افغانستان کے بارے میں یا پاکستان برما کے بارے میں ۔ یا وہ براہ راست اس ظلم کی مدد کر رہی ہیں، جیسے شام میں ایران اور حزب اللہ ۔  مصر کے حالات پر  سعودی اور پاکستانی   ہر دو قیادتیں  خاموش۔

اس تقسیم کو اور  علاقائی  پیمانے پر لے آئیں اور محض پاکستان کا ذکر کریں تو  یہاں بھی حالات دگرگوں ہیں۔ وزیرستان میں ڈرون حملے، کوئٹہ میں ہزارہ قبائل کی صورتحال، کراچی میں روز گرتی  بظاہر بے نام لاشیں، پنجاب کی بند ہوتی صنعتیں، سندھ میں ونی کی گئی لڑکیاں ، بلتستان میں مرتے سیاح۔   پورے ملک میں ہوتے دھماکے۔ یہ   بچوں کو کھانا کھلانے سے قاصر ،خودکشیاں کرتے اور   ان کا علاج نہ کرا پانے کی  خلش کے ساتھ زندہ  رہنے والے ماں باپ ۔ قدم قدم پر چھوٹےچھوٹے کاموں کے لیے اہلکاروں کی مٹھی گرم کرنے کی مجبوری۔  ان میں سے ہر مسئلے کا ایک چیمپئن ہے۔  جس نے رشوت ستانی کا مسئلہ دیکھ لیا اس کے لیے  قیدی چھڑانے والے کی  جدوجہد لا حاصل،  اور جو  شہروں کے دھماکوں پر سراپا احتجاج ہے وہ  ڈرون حملوں پر احتجاج کرنے والوں پر سراپا تنقید۔  جس نے سیاسی  جدوجہد کا راستہ دیکھ لیا اس کے لیے  دوسرے تمام طریقے  بدعت اور جس نے اسلحہ اٹھا لیا اس کے لیے  باقی سب طفل مکتب!

اس تفریق کا اور کسی  پر   اتنا منفی اثر نہیں ہوا جتنا مذہبی طبقہ پر۔  اس کی وجہ کیا ہے یہ ہم آگے دیکھتے ہیں ۔ فی الحال تو یہ دیکھ لیں کہ   اوپر گنوائے گئے  اور دیگر تمام مسائل کے  ساتھ  جب الیکشن ہوئے تو لوگوں نے اسلامی جماعتوں کو   نہ صرف  یہ کہ ان مسائل کے حل کے لیے  اپنے اعتماد کے قابل نہیں سمجھا بلکہ  ایک صوبے کے علاوہ ان کو    اس دفعہ کہیں منہ بھی دکھانے کے قابل  نہیں چھوڑا۔   پورے ملک کی ایک ہزار کے قریب صوبائی اور  قومی اسمبلیوں کی نشستوں سے  اسلامی جماعتوں کے ہاتھ کتنی آئیں؟ پندرہ فیصد؟دس فیصد؟  جی نہیں  تین فیصد سے بھی کم یعنی  بمشکل  تیس سیٹیں۔

بات یہ ہے کہ  اسلامی ،خاص طور پر اسلامی غیر  سیاسی قوتوں  کو واقعی اس بات کا ادراک ہوتا نظر نہیں آتا (یا وہ اظہار نہیں کرتے) کہ لوگوں میں ان کی جڑیں کتنی کمزور ہو چکی ہیں۔  ایسا  لگتا ہے کہ  مذہبی قائدین  نے کسی خاص حکمت عملی کے تحت اپنے آپ کو ان حالات میں الگ تھلگ رکھا ہوا ہے۔  علماء  زیادہ بہتر جانتے ہوں گے کہ  اس کی وجہ کیا ہے اور اس کے لیے لازماً ان کے پاس دلائل ہوں گے ۔   اس سب کا نتیجہ یہ ہے کہ علماء اب   معاشرے کی رہنمائی کے منصب سے دست کش ہو گئے ہیں۔ اس کے باوجود ایسا نہیں ہے کہ ہمارے دینی طبقے سکون میں ہیں۔  یہ آئے دن کی فرقہ وارانہ ہلاکتیں کیا علماء کی نہیں ہیں؟ کیا مولانا اسماعیل عالم نہیں تھے؟ کیا مفتی دین پوری صاحب کوئی غیر اہم شخصیت تھے۔ کیا  مولانا اسلم شیخوپوری صاحب   کوئی گزارے لائق مولوی تھے؟   پھر کیا  گزشتہ  رمضان  کراچی کے سب سے بڑے دارالعلوم  کا محاصرہ نہیں کر لیا گیا تھا؟ کیا  گزشتہ رمضان میں ہی معتکفین کو مسجد میں گھس کر نہیں مارا گیا؟  کیا آئے دن مدارس کو زیادہ  سے زیادہ حکومتی کنٹرول میں لیے جانے کی باتیں نہیں ہور ہیں؟  اس سب کے بعد جب  کراچی کے صف اول کے علماء میں سے ایک  عالم ، جن کے اپنے مدرسے کے  اساتذہ اور طلبہ حالیہ مہینوں میں   شہید کیے جا چکے ہیں،  ملک کے نو منتخب وزیر اعظم کو  ایک کھلا خط لکھتے ہیں تو  یقین جانیے ایک لمحے کو تو دل میں ایک موہوم سی امید یہ  آئی تھی کہ  شاید یہ بھی   مصر کے  عزّ بن عبد السلام کی روایت قائم کریں گے۔   شاید یہ بھی  بادشاہ  وقت کو اس کے مفرد نام سے پکاریں گے اور اس کو کسی معاشرتی برائی کی طرف متوجہ کریں گے۔  شاید انہوں نے سود کے خلاف ایکشن لینے کو کہا ہوگا، شاید  ڈرون حملوں کے خلاف بات ہو گی، شاید امریکہ کی جنگ سے نکلنے کا حکم دیا ہو گا، شاید احادیث کی روشنی میں اور قرآن کی آیات کی رو سے کسی کافر کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر کسی مسلمان کے خلاف جنگ کرنے کے خلاف وعیدیں سنائی ہونگی۔ شاید مہنگائی کے خلاف بات کی ہوگی، شاید شیعہ سنی فرقہ واریت ختم کرنے کی بات ہوگی، شاید ناموس رسالت ؐ کی حفاظت کے بارے میں کوئی ہدایات ہونگی، شاید رشوت کے خاتمے اور سفارش کی روک تھام کی بابت تنبیہہ ہو گی اور  شاید اور کچھ نہیں تو  حاکم وقت سے  اللے تللے ختم کرنے کی بات ہوگی۔ مگر حیف صد حیف کہ  خط جب پڑھا تو اس کا لب لباب تھا کہ ‘جناب اعلیٰ قبلہ وزیر اعظم صاحب دام اقبالہ سے گزارش ہے کہ جمعے کی  ہفتہ وار تعطیل  بحال فرما دیں”!! یقین کریں اگر کسی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہفتہ وار تعطیل کس دن کرنی ہے تو ہماری رائے میں  وہ ملک روئے ارضی پر جنت سے کم نہیں۔

 بہ صد ادب کہ  حضرت کی امامت میں بارہا   نمازیں ہم بھی ادا کر چکے ہیں کہ  ان کا  تدیّن باعث تحسین ہے، میری نا چیز رائے میں  ایسے بے سروپا  اقدامات کی وجہ  صرف اور صرف ایک ہے۔ ایک  مرکزی قیادت کی غیر موجودگی۔  اگر ہمارے  ان بزرگوں  کی کوئی مرکزی قیادت ہوتی تو ان کے اقدامات اتنے افراتفری کا شکار نہ ہوتے۔ قیادت لیکن  ایسے ہی  پیدا نہیں ہو جاتی اس کے لیے کئی  اہل لوگوں کو قربانی دینی پڑتی ہے۔  ہمارے  بڑوں میں سے کچھ کا حال تو یہ ہے کہ اپنے مرتبے اور رتبے کا بھی خیال نہیں کرتے اور مخالفین کو ایسے ایسے ناموں سے پکارتے ہیں کہ کوئی دشمن بھی کیا پکارے گا۔  مشرک، بدعتی، جنت کے طوطے، بینکر،  مردودی، پراسراری، نجدی، وہابی، دیوگندی،   یہ سارے  نام  کلمہ توحید کے ماننے والوں کے ایک گروہ کے منہ سے دوسرے گروہ کے لیے نکل رہے ہیں۔ ایمان کے بعد برا نام لینا بھی برا ہے، سورۃ الحجرات کیا کہہ رہی ہے کیا ہم بتائیں آپ کو؟  اور انہی گروہوں کے ذرا اپنے بزرگوں کے لیے تراشے ہوئے القابات ملاحظہ کیجیے۔ کسی کو رومی ثانی کہا جا رہا ہے، کسی کو شیخ العرب والعجم، کسی کو مجدد ملت، کسی کو شیخ الاسلام، کسی کو  بلبل مدینہ کہا جاتا ہے تو  کسی کو  عارف باللہ۔  کسی  کے نام میں دامت برکاتھم  کا لاحقہ لگا ہے اور کسی کے ساتھ حفظہ اللہ اور کسی کے ساتھ  نور اللہ مرقدہ اور کہیں  پر قدس اللہ سرہ۔  یہ افراط و تفریط ایسے ہی نہیں ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ بزرگان دین ان ناموں کے اہل نہیں، ان میں سے چند یقیناً ہونگے بھی۔ لیکن  ان سابقوں اور لاحقوں پر مرنے مارنے کو دوڑنے سے پہلے اس ہستیؐ کے نام کی اگر حفاظت کر لی جاتی جس کے طفیل  ان بزرگوں کی عزت ہے تو یہ ان کے لیے یقیناً زیادہ باعث افتخار ہوتا۔

توہین ناموس رسالت کے واقعات  اگر بڑھ رہے ہیں تو کسی وجہ سے بڑھ رہے  ہیں۔   مسلمانوں کا نام ہر جگہ دہشت گردی میں لیا جا رہا تو کسی وجہ سے لیا جا رہا ہے۔ اس کی ایک ہی وجہ ہے، اور وہ ہے ایک مرکزی، متفقہ قیادت کی عدم موجودگی  جو مسلمانوں کو  بحیثیت مجموعی ایک لائحہ عمل طے کر کے دے۔    OIC یا عرب لیگ نہیں بلکہ ایسی قیادت جو واقعی مسلمانوں کو ایک جسد واحد کی طرح  چلائے۔   جس کی ایک خارجہ پالیسی ہو، ایک مالیاتی پالیسی ہو، ایک  صنعتی پالیسی ہو۔ چاہے تعلیمی اور داخلی پالیسیاں کچھ مختلف بھی ہوں تو اس بکھری ہوئی بے مہار امت میں پھر سے جان پڑ جائے گی۔  مسلمانوں کی عالمی  سطح پر پھر ایک آواز ہوگی۔ اگر تمام مسلمان  ممالک اس بات پر  اصولی طور پر متفق ہو جائیں تو پھر اس   ادارے کو آپ خلافت کا نام دے لیں یا ریاستہائے متحدہ اسلامیہ کا، بات ایک ہی ہے۔   مسلمان ممالک میں  مقتدر طبقات کے  مفادات اس معاملے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اور پھر وہ  اپنے ملک کے  دینی طبقات میں سے چند لوگوں کو خرید کر اپنا الو سیدھا کرلیتے ہیں۔  محض  چند اختلافات کی بناء پر النور پارٹی نے الاخوان کا ساتھ چھوڑ دیا۔   مرسی کو  نکال کر جو نگران حکومت بنی ہے ا س  میں النور کا  بھی کچھ حصہ ہے مگر انتظار کیجیے کہ کب اس کو دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال پھینکا جاتا ہے۔ ایسے ہی ہماری دینی جماعتیں ایک دوسرے کی  سعی   کو ناکام بناتی ہیں، کہیں دانستہ کہیں انجانے میں۔   ایک دوسرے کے پیچھے نماز تو پڑھ لیتے ہیں لیکن ہاتھ میں ہاتھ نہیں دیتے۔ اخلاقی ہمدردی تو کرتے ہیں  لیکن عملی  ساتھ نہیں۔ لال مسجد کا سانحہ ہوا لیکن پورے ملک کی  مذہبی جماعتوں نے سوائے  ایک رسمی احتجاج کے اور کچھ نہیں کیا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ ان کو  مولانا عبدالرشید کے طریقے سے اختلاف تھا۔  سب نے مانا کہ لال مسجد کے معاملے کو حد سے بڑھانے میں  پرویز مشرف کا کتنا گھناؤنا کردار تھا۔ کیسے اس نے ایک پھنسی کو پھوڑا بننے دیا اور  پھر اس کو  ریاستی طاقت سے ایسا کچلا کہ  آج تک اس کے اثرات محسوس کیے جاتے ہیں۔ یہ سب مان کر بھی، اور یہ سب جان کر بھی،  محض ‘تشریح’ کے فرق کی بنیاد پر   ہمارے دینی طبقے نے   اخلاقی ہمدردی  کو ہی کافی سمجھا اور اس  معاملے کو اس مقام تک جانے دیا  کہ  جہاں  محض بے بسی سے تماشہ ہی دیکھا جا سکتا تھا۔  پرویز مشرف نے  ایک ایک کر کے یہی  کھیل باقیوں کے ساتھ بھی کھیلا ہے۔ کہتے ہیں جرمنی میں نازیوں نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ اس زمانے کے ایک پادری کا  یہ مشہور ٹکڑا تو آپ نے سن ہی رکھا ہوگا ؏

First they came for the communists,
and I didn’t speak out because I wasn’t a communist.

Then they came for the socialists,
and I didn’t speak out because I wasn’t a socialist.

Then they came for the trade unionists,
and I didn’t speak out because I wasn’t a trade unionist.

Then they came for me,
and there was no one left to speak for me.

محض دین کی تشریح  کے فرق کا مطلب ہے کہ  ہر جماعت نے سنت نبوی ؐ کا  مطالعہ کر کے  حضورؐ کی حیات طیبہ میں سے  جو چیز سب سے  زیادہ   اہم سمجھی اس کو اپنی جدوجہد کا مرکز بنا لیا۔  کسی نے تبلیغ کو اہم سمجھا، کسی نے  جہاد کو، کسی نے  سیاست کو  اپنا میدان عمل بنایا  تو کسی نے خیراتی کاموں کو، کوئی مسجد کی تعمیر کر رہا ہے تو کوئی مدرسہ تعمیر کیے چلا جا رہا ہے، کوئی  ذکر و اذکار  کے ذریعے سنت پر عمل کر رہا ہے تو  کوئی  تحریکی  کا م کر کے ایک  منظم جماعت تشکیل دینے  کا خواہش مند ہے۔  حضور نبی کریمﷺ کی حیات طیبہ  میں ہمیں ان میں سے اکثر  کام کسی نہ کسی  وقت میں کسی نہ کسی درجہ میں ملتے ہیں۔  سیرت  طیبہ ؐ میں ہم جہاد بھی دیکھتے ہیں اور تبلیغ بھی، جماعت سازی بھی دیکھتے ہیں اور ریاست کے امور پر مکمل گرفت بھی دیکھتے ہیں۔ معجزہ یہ ہے  کہ جو کام اللہ کے رسول ؐ نے تن تنہا انجام دیا، آج کئی کئی تنظیمیں مل کر بھی نہیں کر پارہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ  ایک دوسرے کے کام  سے متفق نہ ہونے کی وجہ سے  پہلے  بحث پھر اختلاف اور پھر سیدھا سیدھا ضد کا معاملہ ہو جاتا ہے ۔  پھر چونکہ معاشرہ میں دینی   جماعتوں سے  تعاون کرنے والوں کا  ایک وسیع مگر بالآخر  محدود  طبقہ ہے تو ان  کا  تعاون  انہی جماعتوں میں آپس میں تقسیم ہو جاتاہے ۔ کئی مسجدوں میں  ایک سے ڈیڑھ کروڑ روپے کے مینار کی تعمیر ہو جاتی ہے جبکہ  وہی پیسے کسی اور جگہ کسی  دوسرے ، زیادہ ضروری مقصد میں استعمال ہو سکتے تھے۔  لے دے کے بات وہی ایک مرکزی قیادت کی ہے جو  ان سارے اثاثوں کی امین  ہو اور  نہایت  دیانت داری اور خداخوفی  کے ساتھ اس مال کو استعمال کرے۔ ایک آواز ہو۔ جو اس سے ہٹ کر چلے وہ  صاف نظر آجائے کہ  یہ  دین کا  نمائندہ نہیں۔ پہلے ایک  شہر میں  ایسا اتحاد بن جائے پھر اس کو ملک تک پھیلا دیں۔  یہ مشکل  ضرور ہے،  ناممکن نہیں ۔

 اگر ایسا اتحاد نہیں ہو پا رہا تو  قصور  عوام کا بھی ہے  لیکن اصل قصور میرے نزدیک ان عقیدتمندوں کا ہے جو علماء کے اردگرد گھیرا  ڈال کر رکھتے ہیں۔  آج کے دور میں کسی بڑے عالم سے بات کرنا، اس سے کچھ ذاتی طور پر پوچھ پانا اس قدر مشکل کام ہے کہ جب تک آپ کے پاس کوئی  بڑی سفارش نہ ہو آپ علماء سے مل نہیں سکتے۔  اس کی وجہ وہ درمیان کے عقیدتمند ہیں جن کے نزدیک ان کے ‘حضرت’ سے کوئی سوال پوچھنا  اگر گناہ کبیرہ نہیں تو  مکروہ ضرور ہے۔   ایک  عقیدتمند ‘حضرت’ کی ویب سائٹ سنبھال  رہے ہوتے ہیں  تو دوسرے صاحب کے نزدیک   کسی  کا ان کے شیخ کو براہ راست فون کر لینا مداخلت فی الدین کے زمرے میں آنا چاہیے۔   اس سے زیادہ آسان تو   ٹی وی اور ریڈیو پر آنے والے ان نوسربازوں کو کال کرنا ہوتا ہے جن کے لیے  رمضان، ربیع الاول، محرم اور ذی الحجہ مقدس کم اور کمائی کے مہینے زیادہ ہیں۔  عوام ایسے ہی نہیں علماء سے کٹ رہے۔ ایک جمعہ کے اجتماع  میں راقم  نے امام صاحب  کو کہتے سنا کہ ‘عوام کو علماء کی ضرورت ہے، علماء کو عوام کی نہیں’ یہ مقولہ شاید پچیس سال پہلے صحیح تھا مگر آج  نہیں۔  Rand Corporation کی سفارشات میں صاف لکھا ہے کہ  ایسے علماء جو روایت پسندوں کی صف میں آتے ہیں ان کی جگہ ایسے لوگوں کو میڈیا پر لایا جائے  جن کی شہرت ترقی پسندوں کی ہے، جن کو مسجدیں نہیں  ملتیں۔  جو شراب کی حرمت کے بارے میں شکوک پیدا کریں، جو  بدعات کی ترویج میں ممد ہوں ، جو   فحاشی کو نئے معانی پہنائیں۔  اور پچھلے آٹھ دس سالوں میں ان سفارشات پر عمل کے نتیجے میں آپ دیکھ لیں کہ اس وقت سب سے زیادہ دیکھا جانے والا پروگرام ایک  ایسے پوشیدہ  رافضی کا ہے جو  عام محفل میں صحابہ کرامؓ کی شان میں گستاخی کرتا پکڑا گیا  اور ابھی بھی تقویٰ کا لبادہ اوڑھے رمضان  میں نئے  نئے کرتب دکھا  رہا ہے۔  یہ ذمہ داری عوام کی بھی ہے کیونکہ ان کو اپنے عمل کا حساب خود دینا ہے۔

لیکن علماء کو  بھی تو اپنے نمائندے چننے میں احتیاط کرنی چاہیے۔  گزشتہ شوال میں چاند کی رویت پر جو فساد ہمارے  ملک کی سب سے بڑی سیاسی مذہبی  شخصیت نے  بپا کیا وہ آنے والے دنوں کی ایک جھلک تھا۔ یہ خبر بہت نمایاں نہیں ہوئی ورنہ شوال اکتیس دن کا ہوتا نہیں ہے۔ اس ‘اہل حق کے مینار’ نے ایک صوبے میں اقتدار حاصل کرنے کے لیے  وہ  وہ پینترے  بدلے ہیں کہ  اچھے اچھے ماہر کرتب بازوں کو پسینہ آجائے۔  اب تو لگتا ہے کہ آنجناب کا مقصد محض اقتدار کا حصول ہے چاہے اس کے لیے وہ  امریکی سفیر کے پاس خود چل کر جائیں۔  دین محمدی ؐکے ماننے والوں کو اگر اقتدار مانگنے کے لیے  در در کی بھیک مانگنی پڑے تو ایسے اقتدار سے دوری ہی بھلی۔  علماء کا کام دین کی حفاظت کرنا ہے ، اگر اقتدار حاصل کر کے حفاظت ہوتی ہے تو ٹھیک نہیں تو  چار حرف بھیجیے ایسے اقتدار پر جس میں عزت سادات  بھی  ضائع ہونے کا اندیشہ ہو۔  چار حرف بھیجیے ایسے نمائندوں پر جن کے رہتے نہ مدرسے بچیں نہ اساتذہ۔ نہ طالبعلم بچیں نہ طالبات-  جنہوں نے  سب سے پہلے نعرہ لگایا کہ ‘طالبان اسلام آباد سے سو کلومیٹر پر رہ گئے ہیں’ اور وہاں سے کوڑوں کی ایک  جعلی ویڈیو نکل آئی اور پھر سوات میں لاکھوں لوگ اپنے ہی ملک میں بے گھر ہو گئے۔   سب سے پہلے تو ان  نام نہاد  نمائندوں سے  علمائے دین کو  اپنے آپ کو بچانا ہوگا ۔

اس  سلسلے میں وہ لوگ جو واقعی کسی عالم کے قریبی حلقے سے تعلق رکھتے ہیں  وہ اپنے عالم سے بات کریں۔ ان سے سوال کریں ،  کچھ مواقع پر ادب ہلاکت کا باعث ہو جاتا ہے۔ آپ صحابہ کرامؓ سے زیادہ  اپنے حضرت کی تعظیم نہیں کر سکتے ۔دین کے معاملے میں  صحابہ کرامؓ  کبھی نہیں شرماتے تھے، سوال کرتے تھے۔ تو اپنے حضرت سے پوچھیں کہ دوسرے علماء میں برائی کیا ہے۔  اس کو دوسرے عالم سے رابطہ بڑھانے میں مدد کریں۔  ایک دوسرے کے  لیے جو ان کے دلوں میں کچھ غلط فہمیاں ہیں وہ  ختم کرائیں۔  دوسرے مسالک سے رابطہ بڑھانے میں مدد کریں۔ شدت پسندی  اور تمسخر سے نہ   دوسرا مسلک ختم ہوگا نہ  اس  کے ماننے والے۔ یہ  سولہویں صدی کا اسپین نہیں ہے جہاں  تمام ‘دوسروں’ کو جہازوں میں بٹھا کر  افریقہ کے ساحلوں کی طرف روانہ کر دیا جائے۔ تو ہمیں   ایک ساتھ ہی رہنا ہے، تو اس ساتھ کو کیوں نہ  خوشگوار بنا لیا جائے؟ اگر آج  (رمضان۱۴۳۴ ہجری) کی رویت ہلال  جیسا ماحول پورے سال رہے تو یہ ملک اور یہ دین بہت جلد امن کا نشان بن جائے گا ان شاء اللہ۔ آج کوئی  چھوٹا نہیں ہوا ،   بلکہ سب اور بڑے ہو گئے۔  سب صحیح ہوئے اور کوئی غلط بھی نہیں ہوا۔ تو یہ  اکثر دوسرے مواقع پر بھی ہو سکتا ہے۔

علماء کے لیے اپنی جگہ  مضبوط ہونا ضروری ہے کیونکہ ستون تو مضبوط ہی ہوتا ہے  اسے اپنی جگہ سے ہلنا نہیں چاہیے۔ ان کے لیے  الگ الگ نظر آنے میں کوئی ایسی برائی نہیں  کیو نکہ مہیب  سمندر میں جزیرے  اور بھی خوبصورت لگتے ہیں۔ بس  ہم چاہتے ہیں کہ  یہ  دینی طبقے کسی ایک قیادت پر متفق ہو جائیں اور پھر  للہیت کے ساتھ اس پر صبر کریں۔ ایک چھت جب  مل جائے گی تو   اس کے سائے میں   یہ ستون بھی  آئیں گے۔   بس اس کے لیے مجھے، آپ کو، ہر اس شخص کو جو کسی بڑی مذہبی شخصیت کے حلقے تک رسائی رکھتا ہے اس کو ایک پل کا کام کرنا ہے جو کسی طرح ا ن تمام جزیروں کو آپس میں ملا دے۔ اگر  ہم  نے  صرف یہی کوشش کر لی اور اس  میں اخلاص کا دامن نہیں  چھوڑا تو اللہ سے امید ہے کہ   وہ ہم کو روز قیامت رسوا نہیں کرے گا۔  بصورت دیگر،  فرقہ بندی کو بھڑکانے میں  کہیں ہم بھی حصہ دار نہ بن جائیں!


Photo credit: gnuckx / Foter / CC BY

July 10, 2013

یہ وہ سحر تو نہیں


جولائی کے مہینے میں امریکہ ہی نہیں دنیا کے  تیئیس  دیگر ممالک  بھی اپنا  یوم آزادی   مناتے ہیں۔  ارجنٹائن، بیلارس، وینیزویلا اور پیرو  اور خود امریکہ سمیت  ان  میں سے اکثر ممالک نے یہ آزادی بیرونی طاقتوں  کے شکنجے سے حاصل کی تھی۔  امریکہ کے یوم آزادی کی رات تحریر اسکوائر میں لوگوں کو اچھلتے کودتے دیکھ کر  ایسا لگ رہا تھا کہ مصر نے کسی ایسے ہی  ظالمانہ   استعماری  نظام سے نجات حاصل کرلی ہے۔ یہ اس لیے بھی عجیب تھا کیونکہ مصر  نے اگر حسنی مبارک کو تیس سال برداشت کیا تھا اور اس سے پہلے انور السادات اور جمال عبد الناصر اور شاہ فاروق وغیرہ   کو  بھی  برسوں جھیلا تھا تو   اس بار جانے والی حکومت تو نہ فوجی آمریت تھی اور نہ   استبدادی بادشاہت۔ یہ لوگ  تو ایک ایسی حکومت کے خاتمے کی خوشی منا رہے تھے جس  کو ان کے ملک کی  ‘اکثریت’ نے  مرحلہ وار انتخابی عمل کے بعد منتخب کیا تھا۔ محمد مرسی کو  حسنی مبارک سے تشبیہہ دینے والوں نے یہ بھی نہ دیکھا کہ  مرسی نے تو نہ مخالفین سے جیلیں بھرنے کی پالیسی اپنائی،  نہ اپنے مخالفین کے ہجوم پر فائرنگ کروائی ،  نہ  خود پر تنقید کرنے والوں  کو اغواء کروایا،   نہ اپنی ذات کو حرف آخر  اور عقل کل سمجھا(حالانکہ مصر کے نئے منظور شدہ آئین کے بارے میں  پھیلایا گیا  عام تاثر یہی ہے) اور نہ اپنے سے مخالف نظریات کے پرچارکوں کے لیے عرصہ حیات تنگ کیا۔  مرسی پربظاہر الزام ہے تو صرف یہ کہ  وہ دوسرا ‘مبارک’ بننے جا رہا تھا جبکہ درحقیقت ایسا نہیں ہے۔

حقیقت اگر ہے تو  یہ کہ قاہرہ میں خوشیاں مناتے لوگ درحقیقت ایک اسلام پسند حکومت کے خاتمے کی خوشی منا رہے ہیں۔  حقیقت  اگر ہے تو یہ  کہ جب شراب خانوں پر پابندی اور فحاشی پر قدغن لگی تو مصر کے ان  ‘لبرل’ لوگوں  نے  اسی حسنی مبارک کے تیس سالہ دور استبداد کو مرسی کے ایک سالہ دور    استقبال پر ترجیح دی۔  حقیقت اگر ہے تو یہ ہے کہ  مصر، الجزائر، ترکی ، فلسطین اور دنیا بھر میں جہاں بھی اسلام پسند  ‘جمہوری’ حکومتوں کا خاتمہ ہوا ہے   اس کو  مغربی جمہوری ملکوں کی  حمایت  حاصل رہی ہے۔  اور حقیقت اگر ہے تو یہ کہ  بارہ سال  میں پہلی دفعہ کسی حکومت نے اسلام  کو  ریاست کو امور میں مدخل کرنے کے لیے محض چند ہی اقدام کیے تھے   اور اس  کو بھی اسی طرح طاقت کے ساتھ ہٹا دیا گیا جس طرح بارہ سال پہلے طالبان کو ہٹا دیا گیا تھا۔  حقیقت یہ ہے کہ اوبامہ نے اپنی خاص منافقت سے کام لیتے ہوئے جو الفاظ  اپنی تقریر میں رکھے ہیں ان میں ‘تشویش’ اور ‘جمہوری عمل’ کے الفاظ تو ہیں  مگر یہ کہیں نہیں کہا کہ  مصری فوج کا یہ عمل   غلط ہے۔ حقیقت اگر ہے تو یہ کہ اس موقع  پر’ لبرلوں اور سیکولروں ‘ کی منافقت کا پردہ چاک ہو گیا ہے۔  الکُفرُ  مِلّۃٌ  واحدۃٌ   کی ابدی حقیقت سے ہم کو تو  نبی رحمت ؐ  نے  پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا، یہ تو ہمارے ہی لوگ تھے جو  دوڑ دوڑ کر ان میں گھسے جاتے تھے۔

لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ  الاخوان المسلمون کی حکومت  کے خاتمے میں فیصلہ کن کردار فوج نے نہیں، بلکہ  اسلامی قوتوں نے ادا کیا۔ مصر کیا  پوری دنیا کی تاریخ میں پہلی بار کسی  بڑے ملک میں ایک  اسلامی جمہوری جماعت اس قدر  اکثریت کے ساتھ منتخب بھی  ہوئی اور حکومت قائم بھی کر سکی   مگر  جب وہ گئی تو اس کا ساتھ دینے سے ان کے  اسلامی  اتحادیوں نے نہ صرف انکار کر دیا بلکہ  بالفعل ان کے مخالف کیمپ  میں  جا کھڑے ہوئے۔  جامعۃ الازہر  کے علماء نے ایک  بار  پھر سیکولر  عناصر کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں مدد دی  اور اس شخص کے خلاف چلے گئے جس نے کئی دہائیوں میں پہلی بار اقتدار کے ایوانوں میں اللہ کا کلمہ بلند کیا۔ایک بظاہر سیکولر مگر   پیدائشی عیسائی  بلکہ یہودی عدلی المنصور کی حلف برداری میں  غیر مذہبی جنرل الفتاح سیسی کا ہی نہیں ، مذہبی  النور  پارٹی  اور  انتہائی قابل احترام  جامعۃ الازہر   کا بھی بھرپور کردار ہے۔

مصریوں کے بارے میں ایک تاریخی قول  چلا آتا ہے، رِجال ٌ   تَجمعھم الطّبول و ھم مع من غلب ۔ (مصر کے  مرد  ایسے ہیں جن کو ڈھول کی تھاپ اکھٹا کرتی ہے اور وہ اس کے ساتھ ہیں جو غالب آجائے) ۔ یہ کوئی مصر کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔  ہماری عوام بھی مجمع بازی میں کافی خود کفیل ہے۔  بس بازی گر کے پاس ‘مسالہ’ اچھا ہونا چاہیے، لوگ اپنے اصل مسائل بھول کر  نہایت  خلوص کے ساتھ  ان  ڈھولچیوں کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔   پاکستان میں عام لوگوں نے مصر کے حالات پر کوئی خاص ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ شاید اس لیے کہ اس کو الیکٹرونک میڈیا پر خاطر خواہ وقت نہیں دیا گیا۔  پرویز رشید صاحب جو حکومت پاکستان کے ترجمان ہیں، انہوں نے  کہا کہ پاکستان کی طرف سے  سرکار ی ردعمل تین سے چار دن میں آئے گا، باوجود اس کے کہ ۱۴ سال پہلے وہ اور ان کے قائد بعینہ اسی عمل سے خود گزر چکے ہیں۔ خلیجی ریاستوں کی طرف سے   تقریباً وہی ردعمل ظاہر کیا گیا ہے جو انہوں نے  اکتوبر  2001  میں افغانستان اور  مارچ 2003 میں  عراق پر امریکی  جارحیت میں  دیا تھا، یعنی  امریکی لائن کی حمایت۔

پاکستان کے   تناظر میں  اگر ہم  مذہبی اور غیر مذہبی   قوتوں کی صورتحال کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے  کہ  لبرل اور سیکولر عناصر  میں اسلامی قوتوں سے زیادہ  ایکا ہے۔  سیکولروں  کی مجبوری یہ ہے کہ  وہ ایک جمہوری حکومت کے خاتمے پر خوشی کا اظہار بھی  نہیں کر  سکتے لہٰذا انہوں نے  اس فوجی بغاوت کی  ذمہ داری الٹا الاخوان پر ڈال دی  ہے کہ اس نے   مصر کی تاریخ میں پہلی بار ایک  جمہوری طور پر منتخب حکومت کی حیثیت سے  اپنی عوام کو  مایوس کیا اور فوج کو  مداخلت کا جواز فراہم کیا۔  ایاز امیر صاحب نے اپنے کالم میں  لکھا کہ مسلم دنیا کی مشکل ہی یہ  ہے کہ یہ  اپنی علاقائی  حدود کی بنیا د پر سوچتے نہیں۔  انہوں نے مرسی  کا تقریباً مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ اپنا گھر سنبھل نہیں رہا تھا اور  وہ  شام کے حالات میں مداخلت کر رہے تھے۔ دوسری جانب  ہمارے مذہبی حلقے   مصر کی تازہ ترین صورتحال میں محض پوائنٹ اسکورنگ کرتے رہ گئے ہیں، الّا ماشا ءاللہ۔  جنہوں نے  اپنی جدوجہد کے لیے انتخابی میدان منتخب کیا تھا وہ  مصر میں  ‘جمہوری’ حکومت کے خاتمے پر مظاہرہ کر رہے  ہیں۔ اور جنہوں نے انتخابی میدان منتخب کرنے کو غلطی قرار دیا وہ  اس فوج کشی کو جمہوری عمل کی ناکامی کا معنی پہنا رہے ہیں۔  واضح رہے کہ جس وقت الاخوان کی حکومت آئی تھی تو  اس وقت  بغلیں بجانے اور  بغلیں جھانکنے کی ترتیب اس کے برعکس تھی۔ سہ ماہی ایقاظ  نے اپنے تازہ مضمون میں  طرفین کے اچھے خاصے لتے لیے ہیں کہ  پہلی بات تو یہ کہ کسی کی ناکامی، ہماری کامیابی کی  ضمانت نہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ یہ وقت ایک دوسرے سے لڑنے کا نہیں  ہے۔ بلکہ  اس وقت پہلے سے زیادہ ایک نظر آنے کی ضرورت ہے۔

مصر میں فوجی بغاوت کے بعد مغربی  لکھاریوں کے آنے والے   مضامین اس حقیقت کی غمازی ہی نہیں کر رہے بلکہ ببانگ دہل اس بات  کا اعلان کر رہے  ہیں کہ ان کے نزدیک مسئلہ اسلام ہے، سیاسی یا فوجی اسلام نہیں۔  ڈیوڈ بروکس کے نزدیک

‘اہم چیز یہ ہے کہ  ایسے لوگوں کو اقتدار سے باہر کر دیا جائے چاہے اس کے لیے  فوجی  بغاوت ہی کا استعمال کیوں نہ کرنا پڑے۔(اصل)   ہدف یہ ہے کہ سیاسی اسلام کو  کمزور کر دیا جائے  چاہے اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے۔ ‘

مصر میں   لبرلوں کے لیے روشنی کے مینار کی حیثیت رکھنے والے البرادعی  نے  کہا ہے کہ انہیں اپنے  مغربی دوستوں کو اس بات پر راضی کرنے کے لیے کافی محنت کرنی پڑی  کہ مصر میں جو کچھ فوج نے کیا وہ انتہائی ضروری تھا۔

حاصل وصول ایک  ہی بات ہے،  الجزائر   اور مصر میں  حکومت سیاسی طریقے سے حاصل کی جائے یا اٖ فغانستان  میں   طالبان کے انقلاب کے ذریعے،  اگر حکومت  نے   ذرا بھی  کوشش کی   کہ اسلام کو  ایک جز و کے طور پر ہی سہی لوگوں کی سیاسی زندگی میں داخل کر دیا جائے  تو وہیں اس کے اوپر  ایک ایسی کاری ضرب لگائی جائے گی کہ  ان کی تحریک دس سال پیچھے جا کھڑی ہو گی-  اگر لوگوں کی اکثریت اسلام چاہ رہی ہے اور حکومت نہیں چاہ رہی تو چاہے   مظالم کے پہاڑ ہی  کیوں نہ توڑ دیے جائیں، جیسے شام میں ہو رہا ہے، لبرلوں کے کانوں پر جوں نہیں رینگے گی۔   ترکی میں جو کچھ ابھی ہو رہا ہے   وہ   اگر  آج سے پانچ سال پہلے ہوتا تو  شاید ترکی میں اردگان حکومت کا بھی  خاتمہ ہو چکا ہوتا۔  ان لوگوں کے خیال سے مذہب کی جگہ سیاست نہیں ہے، حکومت نہیں ہے،  معیشت نہیں ہے،  بلکہ معاشرت بھی نہیں ہے، بس مذہب  ایک انفرادی شے ہے ! اب یہ ان کو کون سمجھائے کہ  ؏ جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔ فرد سے ہی سیاست ہے، فرد سے ہی  حکومت، اسی سے معیشت اور اسی سے معاشرت۔ تو سیدھے سبھاؤ فرد کو ہی کیوں نہیں نکال دیتے  باہر؟

کیا اب بھی کسی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اسلام پسندوں پر عرصہ حیات تنگ کردینے کی آخر وجہ کیا ہے؟ اس چیز کو دیکھنے کے لیے کوئی عقابی نگاہیں نہیں چاہییں کہ مصری فوج نے مرسی سے اقتدار چھیننے سے پہلے ہی  غزہ کی سرنگیں بند کرنے کا کام شروع کر دیا تھا۔  اقتدار میں آنے کے بعد اخوان کے ہمدرد  چار چینل بند کر دیئے گئے۔  الاخوان المسلمون کے دھرنے پر فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں  تیس سے اوپر لوگ شہید اور سو تک زخمی ہو گئے۔  اس پر نہ کوئی جمہوری روایت  پامال ہوئی نہ انسانی حقوق، کیونکہ  جمہوری روایات کے امین  تو صرف سیکولر ہیں، اور انسانی حقوق کے علمبردار صرف لبرل۔ مصر میں تو خیر براہ راست امریکی ( یعنی صیہونی) مفادات پر  زک پڑ رہی تھی  اس لیے وہاں  تو  انگریزی ترکیب کے مطابق یہ  ‘کب؟’ کا معاملہ تھا ‘اگر’ کا نہیں-  لیکن باقی دنیا میں کیا ہو رہا ہے؟   یورپ میں عورتوں کو  زبردستی بے پردہ کیا جا رہا ہے۔  حجاب پہنی ہوئی عورت کو بھری عدالت میں قتل کر دیا جاتا ہے۔  داڑھی والوں کو ائرپورٹ پر  لائن سے نکال کر تلاشی لی جاتی ہے۔  پکڑا جانے والا اگر فیصل شہزاد ہو ( صحیح یا غلط کی  بات نہیں) تو  وہ تمام مسلمانوں کا  نمائندہ ، اسلام دہشت گردوں کا مذہب اور تمام مسلمانوں کے لیے  شرمندہ نظر آنا لازمی۔  لاکھوں کے قتل کا  متحرک  ہٹلر، ہزاروں کے خون کا ذمہ دار سلوبودان میلاسووچ،  درجنوں کو اپنے  دو ہاتھوں سے مارنے والا اینڈرز بریوک  مگر عیسائیوں  کا  نمائندہ نہیں، یہ ان کا ذاتی فعل ہے جس کی  کسی عیسائی کو صفائی پیش کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ پھر ہمارے اپنے معاشروں میں اسلام پسند جس تضحیک کا نشانہ بنتے ہیں وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔  جس نے داڑھی رکھ لی وہ منہ چھپا کر پھر رہا ہے اور جو  رات کو  ڈانس پارٹی سے ہو کے آیا ہے اس  کی فیس بک پروفائل پر likes ہی likes ۔  جہاں باپ  نے کسی دینی اجتماع میں جانا شروع کیا بچوں کے منہ لٹکنے شروع ہو گئے۔  انصار عباسی اور اوریا مقبول جان جیسے  کالم نویس   لبرل طبقہ کی ہنسی کا براہ راست نشانہ بنتے ہیں۔

  یہ کیا ہے؟  یہ  دراصل وہ فطری ترتیب  ہے جس پر اللہ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔  دنیا میں ازل سے ابد تک  درحقیقت صرف دو ہی گروہ ہیں۔  ایک کا نام حزب اللہ، دوسرا حزب الشیاطین۔  فی الوقت  دنیا   چاہے یا  نہ چاہے اپنے آپ کو ان دو  گروہوں  میں تیزی سے تقسیم کر رہی ہے۔   جس کو ہم grey area  کہتے ہیں وہ  اب بہت کم رہ گیا ہے اور اس طرح کے اقدامات کر کے  یہ لادین طبقہ چاہ رہا ہے کہ  یہ تقسیم  بالکل واضح ہو جائے۔  اپنی دانست میں وہ  اپنی دنیا پکی کر رہے ہیں مگر در حقیقت اس سے بڑا خسارے کا سودا  کوئی انسان نہیں کر سکتا۔  و انتم لا تشعرون ! لیکن تم تو  سمجھ ہی نہیں رکھتے! کسی سیکولر سے مگر اور توقع کیا کی جا سکتی ہے، اس کا ایمان دنیا میں ہے وہ اپنے ایمان  کے مطابق کام کر رہا ہے۔  مسئلہ تو ہمارا ہے، ان لوگوں کا جن کا دعوی ٰ تو یہ ہے کہ  ایمان ہمارا اللہ پر ہے، مگر عمل   اس دعوے کی نفی کرتا جا رہا ہے۔ عشق رسولؐ کے مدعی بھی ہیں ، نعت خواں، حافظ بھی ہیں مگر صبح اٹھتے ہی  سب سے پہلے اپنے چہرے سے سنت نبویؐ  کو کھرچ کر  کچھ تو کچرے میں ڈال دیتے ہیں اور کچھ سیدھا گٹر میں بہا دیتے ہیں۔  خواتین صحابیات  مبشرات   ؓ  کی مثالیں  دیتی ہیں مگر انہی کے اصرار پر مرد حرام کماتے ہیں۔  سود پر ہماری معیشت کی بنیاد ہی نہیں ہے، یہ اس  کی جان ہے، ہمارے  نئے نویلے   وزیر خزانہ صاحب نے  تو اس بجٹ میں  انٹرسٹ کا لفظ ہی استعمال نہیں کیا، سیدھا شرح سود کی بات کی۔  تو ہم تو خود اپنے عمل سے ثابت کر رہے ہیں  کہ اسلام فی زمانہ کوئی قابل عمل  چیز نہیں، نہ  انفرادی زندگی میں ، نہ اجتماعی زندگی میں۔ تو   اگر ڈیوڈ بروکس یہ کہہ دیتا ہے کہ  ‘نا اہلی  دراصل بنیاد پرست اسلام  کے   دانشورانہ  DNA  میں  رچی بسی ہوئی ہے’ تو  اس نے  کیا غلط کہہ  دیا ؟

مصر کے حالیہ  واقعات نے  اگر کم از کم بھی یہ کر دیا کہ ہمارے  لوگوں کی  آنکھوں سے   غفلت  کی پٹی کھول دی تو یہ بہت بڑی بات ہو گی۔یہ بات کہ شدت پسندی دراصل اسلام پسند نہیں بلکہ سیکولر اور لبرل طبقہ کرتا ہے، اگر سمجھ آ گئی تو یہ ایک نہایت بڑی بات ہوگی۔ہمارا اشارہ ان لوگوں کی طرف نہیں ہے جو  صرف دینی مزاج کے لوگ نہیں یا جو نماز نہیں پڑھتے یا روزہ نہیں رکھتے۔ ہمارا اشارہ ان لوگوں کی طرف ہے جن کو ان سب کے ساتھ ساتھ   یہ  بھی برا لگتا ہے کہ  ہمارے کھلاڑی ‘ان شاء اللہ ‘ کیوں کہتے ہیں۔  ہمارے لوگ اب اللہ حافظ کیوں کہتے ہیں۔  رمضان کو Ramadan کیوں بولا جا رہا ہے۔   ان میں سے اکثر وہ لوگ ہیں جو اپنے ‘حق’ کو پانے کے لیے جھوٹ کا سہارا لینے میں ذرا عار محسوس نہیں کرتے۔  یہی تو ڈیوڈ بروکس نے کہا ہے، ‘چاہے کسی طریقہ سے بھی بس  سیاسی اسلام کو  ہرا دو’۔ چاہیں تو ایک  جھوٹی ویڈیو چلا کر سوات کے امن  معاہدے کو پارہ پارہ کر دیں۔ چاہیں تو لال مسجد کے خلاف واویلا مچا کر وہاں آپریشن کرا دیں اور پھر ٹسوے بہائیں کہ یہ کیا کر دیا؟  چاہیں تو  صوفی محمد کے خلاف اسمبلی کے فرش پر چلا چلا کر ہاتھ ہلا ہلا کر   تقریریں کریں ۔  چاہیں تو فحاشی کے  بے محابا پھیلاؤ سے صاف مکر جائیں اور اسلام پسندوں پر ثقافتی دیوالیہ پن کی تہمت چسپاں کر دیں۔ یا  جیسے مصر میں ہوا کہ ایک  منتخب  جمہوری حکومت کو  اٹھا کر باہر پھینک دیں اور  اپنے  پیارے البرادعی کو   انتہائی  ‘جمہوری’ طریقے سے نگران حکومت کا حصہ بنوا دیں۔  یقین کریں ، ایسا لگتا ہے کہ یہ دن کو دن  اور رات کو رات بولتے ہیں تو  اس کے پیچھے ان کا مفاد ہوتا ہے۔

اس  سارے  منظر نامہ سے اگر ہم نے اتنا ہی سمجھ لیا تو یہ بھی کوئی معمولی فائدہ نہ ہو گا کہ  ان کی آزادی ہماری آزادی نہیں۔  ان کی شام  ہماری  شام نہیں ، اور ان کی سحر ،ہماری سحر نہیں ۔

 فاعتبرو۱ یا اولی الابصار۔

June 27, 2013

Aik Jasarat


ایک جسارت

از۔۔۔ ابو شہیر

الیکشن سے دو دن قبل یعنی 9 مئی 2013 ؁ کو ہمارے ایک بزرگ ہمارے گھر تشریف لائے۔ ادھر ادھر کی باتیں ہوئیں۔ دوران گفتگو والدہ نے سوال کیا کہ

ووٹ کس کو دیں گے؟”

انہوں نے دو ٹوک انداز میں کہا : “ایم کیو ایم۔ ۔۔بقا کا معاملہ ہے۔ “

ان کا جواب سن کر سخت حیرت ہوئی۔ جی میں تو آئی کہ ان کی توجہ اس جانب مبذول کرائیں ، ان کو احساس دلائیں کہ آپ کا یہ عمل آپ کی آخرت کے اعتبار سے کس قدر خطرناک اور تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے ، لیکن پھر ساتھ ہی وہ تلخ رویے یاد آئے ،  ماضی میں اس قسم کی جسارتوں پر جن کا سامنا کرنا پڑا ۔ سو فوری طور پر کوئی جواب نہ بن پڑا۔

بزرگوار تو یہ کہہ کر کچھ دیر میں چلے گئے لیکن ہمیں ایک اضطراب ، ایک کرب میں مبتلا کر گئے۔ یقیناً آپ یہ جاننا چاہ رہے ہوں گے کہ بزرگوار کے جواب پر ہمارے اس درجہ مضطرب ہوجانے کی وجہ کیا تھی ؟ تو چلئے پہلے اس کا جواب دیئے دیتے ہیں۔

الحمد للہ ہم مسلمان ہیں۔ ہماری اصل شناخت ، اصل پہچان اسلام ہے ۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہم سب سے پہلے مسلمان ہیں ، دیگر جو کچھ بھی ہیں اس کے بعد ہیں ۔ اس مسلمانی کے کچھ بنیادی تقاضے ہیں ، جن سے انحراف و روگردانی کرنے کی صورت میں خدانخواستہ دائرہ اسلام سے ہی باہر ہو سکتے ہیں۔ مثلاً عصبیت کے بارے میں حدیث رسول ﷺ ہے:

“لیس منا من دعا الی عصبیة ، ولیس منا من قاتل عصبیة ، ولیس منا من مات علی عصبیة”۔ (رواہ ابوداؤد‘ مشکوٰة:۴۱۸)

مفہوم: جس نے عصبیت کی طرف بلایا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ جس نے عصبیت پر جان دی وہ ہم میں سے نہیں ہے، جو عصبیت کی خاطر لڑا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔یعنی عصیبت کی طرف بلانے والے سے نبی اکرم نے اعلان بریت کیا ہے۔ پاکستان کی دیگر کئی سیاسی جماعتوں کی طرح ایم کیو ایم  بھی لسانیت کی بنیاد پر معرض وجود میں آئی ، اور لسانیت عصبیت ہی کی ایک شکل ہے۔

لسانیت سے صرف نظر کرتے ہوئے اگر ایم کیو ایم کے ابتدائی دور کا جائزہ لیا جائے تو بلاشبہ اس کا آغاز بہت عمدہ تھا اور واقعتاً یہ ایک تحریک بن کر ابھری۔ جماعت کی تنظیم کی اگر بات کی جائے تو وہ بھی مثالی تھی اور آج بھی دیگر جماعتوں کے مقابلے میں بہت بہتر ہے ۔ اس جماعت نے نوجوان طبقے کو بہت زیادہ متاثر کیا اور نوجوان قیادت کو ابھرنے کا موقع فراہم کیا ۔ عظیم احمد طارق جیسے جواں سال لیڈر کو بھلا کون فراموش کر سکتا ہے ۔ پھر یہ کہ نوجوان کارکن جس طرح اپنے قائد کے جانثار بنے ، جلسوں میں جو شاندار نظم و ضبط کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں ، جس طرح قائد کی ایک آواز پر جلسہ گاہ میں خاموشی طاری ہو جایا کرتی ہے ، وہ درحقیقت اس جماعت کا ایک امتیازی وصف ہے ۔ اسی جماعت کے پلیٹ فارم سے کراچی کو مصطفیٰ کمال جیسا نوجوان میئر نصیب ہوا جس نے اپنی انتھک محنت اور قائدانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے محض چار برسوں میں اس شہر کی کایا پلٹ دی ۔ قائد تحریک الطاف حسین کی قائدانہ صلاحیتوں کا اعتراف نہ کرنا بھی زیادتی ہو گی ۔ جن کے ایک اشارے پر تنظیم کے کارکن کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔یہ الطاف حسین ہی کی بصیرت تھی جس نے مصطفیٰ کمال میں چھپی صلاحیتوں کو پہچانا ورنہ مصطفیٰ کمال کو کون جانتا تھا ؟

جس جماعت کو ایسے جانثار اور مخلص کارکن میسر ہوں وہ کیا کچھ نہیں کر سکتی تھی !لیکن پھر نجانے کیا ہوا کہ یہ جماعت ان تاریک راہوں کی جانب چل نکلی جن پر سفر نے اسے آج اس مقام تک پہنچا دیا ہے کہ اپنے بھی خفا ہیں اور بیگانے بھی ناخوش ۔ ایم کیو ایم جاگیردارانہ نظام کے خلاف بغاوت کا علم لے کر کھڑی ہوئی تھی لیکن بد قسمتی سے آج خود ایک جاگیردار جماعت کا روپ دھار چکی ہے۔ فیوڈل ازم سے نفرت کرنے والی اس جماعت کے اطوار و افکار میں آج خود فیوڈل ازم واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے ۔ بات بے بات ہڑتالیں کرنے میں یہ جماعت اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ اردو بولنے والوں کے حقوق کے تحفظ کی علمبردار اس جماعت کے مختلف اقدامات سے آج اردو بولنے والوں ہی کا شدید استحصال ہو رہا ہے ۔ شہر کراچی کی آبادی کا بیشتر حصہ اردو بولنے والوں پر مشتمل ہے اور شہر کے بیشتر علاقے اردو بولنے والوں کا مسکن ہیں۔ ہم خود بھی اردو بولنے والے ہیں۔ ہم سوال کرتے ہیں کہ ایم کیو ایم کی ہڑتالوں کے سبب کاروبار زندگی معطل ہوجانے سے سب سے زیادہ نقصان کس کو ہوتا ہے ؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے یقیناً کوئی راکٹ سائنس درکار نہیں۔صرف الیکشن سے قبل ماہ مئی کے ابتدائی ہفتے کا جائزہ لیں تو اس دوران تین مرتبہ شہر کراچی بند ہوا اور الیکشن کے بعد سے اب تک متعدد بار شہر بند کرایا جا چکا ہے ۔تاہم طریقہ واردات میں ایک تبدیلی یہ آئی ہے کہ لندن یا رابطہ کمیٹی کی جانب سے ایک یوم سوگ کا اعلان کیا جاتا ہے جس میں عوام سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ رضاکارانہ طور پر دوکانیں اور کاروبار بند رکھیں۔ اور اس رضاکارانہ یوم سوگ ، اور عوام کا ایم کیو ایم سے اظہار یک جہتی وغیرہ کی حقیقت بھی اب سب پر پوری طرح عیاں ہو چکی ہے۔ روزانہ اجرت پر کام کرنے والوں سے پوچھئے کہ ان ہڑتالوں کے باعث ان پر اور ان کے اہل خانہ پر کیا گزرتی ہے ۔ کاروباری طبقے سے پوچھئے کہ ان ہڑتالوں سے ان کو کہاں کہاں کتنا کتنا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے ۔

اختلاف رائے اس جماعت کو برداشت نہیں ہے ۔ آپ اس کے قائد کی جانب انگلی اٹھا کے دیکھیں ، یہ آپ کا بازو کیا ، گردن مروڑنے پر اتر آئے گی ۔ ایم کیو ایم کی قیادت دینی طبقے سے بھی شدید بیزار معلوم ہوتی ہے ۔ خود اس جماعت کے کارندے کلاشنکوفیں لے کر دندناتے اور شہر بند کراتے پھرتے ہیں ، لیکن اگر کوئی اسلام پسند فحاشی کے اڈے بند کرانے کے لئے ڈنڈہ اٹھالے تو یہ پورے شہر میں “ڈنڈہ بردار کلاشنکوفی شریعت نامنظور “کے بینرز کی بھرمار کر دیتے ہیں۔ اس کھلی غنڈہ گردی کے باوجود بھی میڈیا ان کی طرف براہ راست نشاندہی کرنے سے عاجز ہے اور ساری فرد جرم “نا معلوم افراد “پر عائد کر دی جاتی ہے۔ اللہ اللہ خیر صلا! قربانی کی کھالوں کی چھینا جھپٹی اور زور زبردستی سے شروع ہونے والا سلسلہ آج یہاں تک دراز ہو چکا ہے کہ ووٹ بھی گن پوائنٹ پر لئے جا رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کی غنڈہ گردی کے ثبوت کے طور پر حالیہ الیکشن کے بعد کی چند ویڈیوز ہی دیکھ لیجئے ۔ الیکشن میں دھاندلی اور جعلی ووٹنگ کے ریکارڈ قائم کرتے ہوئے جب یہ جماعت ایک بار پھر کراچی کی بیشتر نشستیں جیتنے میں کامیاب ہو گئی تو اگلے روز لندن سے ویڈیو خطاب میں جماعت کے قائد الطاف حسین نے دھمکی آمیز لہجے میں فرمایا کہ “اگر اسٹیبلشمنٹ کو کراچی کی عوام کا مینڈیٹ پسند نہیں ہے تو پھر کراچی کو پاکستان سے علیحدہ کر دیجئے “۔ اسی طرح پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان جب اس دھاندلی کے خلاف مظاہرے کے لئے تین تلوار چورنگی پر اکٹھے ہوئے تو ان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ” یہ تین تلوار پر جو لوگ مظاہرہ کر رہے ہیں، بہت شو بازی کر رہے ہیں ، میں لڑائی جھگڑا چاہتا نہیں ہوں ورنہ تو ابھی اپنے کارکنوں کو حکم دوں تو وہ تین تلواروں کو اصلی تلواروں کی شکل دے دیں گے” ۔ اسی طرح سے میڈیا کے مختلف اینکر پرسنز کو ٹھونک دینے والا بیان بھی سب کو یاد ہی ہو گا۔ اس شر انگیزی سے کہیں زیادہ تکلیف دہ بات یہ تھی کہ ایم کیو ایم کے مختلف ترجمان مثلا ً رضا ہارون وغیرہ اپنے قائد کے ان فرامین کی عجیب و غریب تاویلیں اور توجیہات بھی پیش کر رہے تھے ۔

درج بالا تمام عوامل کو بالفرض نظر انداز کر بھی دیا جائے تو ایک نہایت سنگین مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس جماعت کے قائد الطاف حسین قادیانیوں کے بارے میں بھی نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ کبھی وہ مرزا طاہر کی موت پر افسردہ و رنجیدہ نظر آتے ہیں تو کبھی مرزا مسرور کی ماں کی موت پر تعزیتی پیغام جاری فرماتے اور دعائے مغفرت فرماتے ہیں۔ قادیانیوں کے بارے میں انہوں نے مبشر لقمان کو انٹرویو دیتے ہوئے جن خیالا ت کا اظہار فرمایا ، وہ آج بھی یو ٹیوب پر دیکھا جا سکتا ہے ۔

ایسی جماعت کو ووٹ دینا ، اس کو سپورٹ کرنا ، اس کے بارے میں نرم گوشہ رکھنا ، مظلوموں کی آہیں لینے کا ساتھ ساتھ ہماری دانست میں ایمان کے بنیادی تقاضوں کی بھی خلاف ورزی ہے جو اخروی خسارے کا بھی باعث بن سکتی ہے ۔ ووٹ کی شرعی حیثیت کے بارے میں مفتی محمد شفیع صاحبؒ نے تفصیل سے بحث کی ہے جس کے آخر میں مفتی صاحب فرماتے ہیں :

“خلاصہ یہ ہے کہ ہمارا ووٹ تین حیثیتیں رکھتا ہے ۔ ایک شہادت، دوسرے سفارش، تیسرے حقوق مشترکہ میں وکالت ۔ تینوں حیثیتوں میں جس طرح نیک، صالح، قابل آدمی کو ووٹ دینا موجب ثواب عظیم ہے ، اور اس کے ثمرات اس کو ملنے والے ہیں، اس طرح نا اہل یا غیر متدین شخص کو ووٹ دینا جھوٹی شہادت بھی ہے اور بری سفارش بھی اور ناجائز وکالت بھی ، اور اس کے تباہ کن ثمرا ت بھی اس کے نامہ اعمال میں لکھے جائیں گے۔ “

تو قارئین ! یہ تھیں ہمارے کرب و اضطراب کی وجوہات۔ ہمارے وہ بزرگ ہم سے اور ہم ان سے محبت کے دعوے دار ہیں، اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی شخص سے محبت کا حقیقی اظہار یہ ہے کہ اسے نقصان سے بچایا جائے ، اور سب سے بڑا اور حقیقی نقصان تو آخرت کا ہے ۔ انہیں شاید اس بات کا ادراک نہیں تھا کہ ایم کیو ایم کو ووٹ دے کر وہ درحقیقت ایم کیو ایم کے متوقع جرائم میں شریک ہو جائیں گے جس پر آخرت میں جوابدہی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ چنانچہ دماغ مسلسل اسی ادھیڑ بن میں لگا رہا کہ ان تک پیغام کس طرح اور کن الفاظ میں پہنچایا جائے ۔ اندیشہ تھا کہ کہیں وہ ہماری اس جسارت کو گستاخی پر محمول نہ کر لیں، کہیں وہ برا نہ مان جائیں، کہیں ناراض نہ ہو جائیں ۔ پھر ساتھ ہی یہ بھی خیال آیا کہ صرف بزرگوار ہی پر کیا موقوف، اور بھی نجانے کتنے لوگ اپنا اپنا ووٹ ایسی ہی کسی جماعت کو دینے کا سوچے بیٹھے ہوں ۔ تو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے دینی فریضے کو مد نظر رکھتے ہوئے کافی غور و خوض کے بعد موبائل فون پر ایک پیغام ترتیب دیا اور بزرگوار کے ساتھ ساتھ فون کونٹیکٹس میں محفوظ دیگر نمبرز پر بھی ارسال کر دیا ۔  

ووٹ دیتے وقت یہ یاد رکھئے گا کہ …

-شرعی طور پر ووٹ کی حیثیت شہادت یعنی گواہی کی ہے …. تو دیکھ لیجئے گا کہ آپ کا ووٹ کسی فاسق و فاجر شخص / جماعت کے حق میں گواہی تو نہیں بن رہا ؟

پاکستان ایک وعدے کے تحت حاصل کیا گیا تھا کہ اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام … تو دیکھ لیجئے گا کہ آپ جس کو ووٹ دے رہے ہیں وہ شخص / جماعت اس عہد کے برخلاف نظریات کی حامل تو نہیں ۔

-یہ مت بھولئے گا کہ اصل مسئلہ دنیا کا نہیں آخرت کا ہے کہ اللہ کے سامنے اپنے اس ووٹ کا کیا جواز پیش کریں گے؟

اگلے روز ان کا جواب موصول ہوا کہ … تمہارا پیغام بہت پر اثر تھا ، جس نے مجھے اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور کر دیا ۔

اللہ اکبر ! ہمیں ایک قلبی سکون و طمانیت محسوس ہوئی کہ ہمارے ان بزرگ نے ہمارے پیغام کو اہمیت دی اور اپنے فیصلے پر نظر ثانی فرمائی ۔ درحقیقت یہ ان کا بڑا پن ہے ۔ اللہ کا شکر ہے کہ وہ ناراض ہوئے نہ برہم ۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ ہمارے دل میں ان کی عزت و تکریم مزید بڑھ گئی۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس کار خیر کی توفیق ، فہم ، جرات اور حوصلہ عطا فرمایا ۔

جو افراد بھی ایم کیو ایم (یا ایسی ہی کسی اور جماعت )سے وابستگی یا اس کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں ان کی خدمت میں بصد ادب عرض ہے کہ وہ بھی ہماری درج بالا گزارشات پر غور فرمائیں اور ایک بار مسلمان بن کر ضرور سوچیں ۔۔۔ یا تو تنظیم کی اعلیٰ قیادت کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی کوشش کریں کہ وہ اپنے باطل نظریات پر نظر ثانی کرے یا پھر اس تنظیم سے علیحدگی اختیار کر لیں۔ کہیں بہت دیر نہ ہو جائے ۔

کراچی کی عوام کو بھی سوچنا چاہئے کہ وہ کب تک اس جماعت کے ہاتھوں یرغمال بنی رہے گی، کب تک ہڑتالوں اور یوم سوگ کے نام پر کاروبار اور دوکانیں بند کرتی رہے گی؟ کراچی کی عوام کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ آیا وہ مظلوم ہے ظالم ؟ کہ ظالم کو ظلم سے نہ روکنے والا یا ظلم میں ہاتھ بٹانے والا بھی ظالم ہے۔

آخر میں ہم یہ کہتے چلیں کہ ہمیں اس امر کا بھی اندازہ ہے کہ ہم نے یہاں اصلاح احوال کی جو کوشش کی ہے ، اس کو غلط معنوں میں لئے جانے یعنی ہماری اس جسارت کو گستاخی سمجھے جانے کا خاصا امکان ہے ، جس کے بعد ہمیں بھی کڑے رد عمل اور تنقید کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے ، بلکہ ہو سکتا ہے کہ کوئی ٹھونک دینے پر اتر آئے … لیکن کیا کیجئے …. مجھے ہے حکم اذاں لا الٰہ الا اللہ !

اللھم ارنا الحق حقاً وارزقنا اتباعہ ، و ارنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ

حوالہ جات:

کراچی کو الگ کر دیجئے  ، اور پاکستان تحریک انصاف کے مظاہرین کو دھمکی

http://www.youtube.com/watch?v=1nHwERmyTrM

اینکر پرسنز کو دھمکی

http://www.youtube.com/watch?v=9mSENwP4EMo

ووٹ کی شرعی حیثیت

http://urdulook.info/forum/showthread.php?6986-%D9%88%D9%88%D9%B9-%DA%A9%DB%8C-%D8%B4%D8%B1%D8%B9%DB%8C-%D8%AD%DB%8C%D8%AB%DB%8C%D8%AA!

May 15, 2013

Salam Pakistan!


سلام پاکستان

از۔۔۔ ابو شہیر

بالآخر الیکشن منعقد ہو گئے۔پانچ سال سے مہنگائی، بد امنی ، لا قانونیت ، بھتہ خوری، ظلم ، جبر ، تشدد، کرپشن، بھوک، افلاس ، لوڈ شیڈنگ، سی این جی کی بندش، ہڑتالوں اور یوم سوگ کی ماری قوم کو آخر کار وہ موقع ہاتھ آیا کہ جب وہ اپنے حق رائے دہی کو استعمال کرتے ہوئے حبیب جالب کے قالب میں ڈھل کر بتا دیتی:
تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
چارہ گر، میں تمہیں، کس طرح سے کہوں؟
تم نہیں چارہ گر
کوئی مانے ، مگر
میں نہیں مانتا
میں نہیں جانتا
اور قوم کی اکثریت نے اپنے عمل سے بتا دیا ، مہر شہادت ثبت کر دی ۔ سلام پاکستان!
اہلیہ نے صبح ہی صبح ووٹ ڈالنے کی فرمائش کر دی۔ سو نہار منہ پولنگ اسٹیشن کا رخ کیا۔ جس کے باہر گمان اور سابقہ تجربات کے بر خلاف عورتوں مردوں کی طویل قطار موجود تھی۔ ہم بھی جا کر کھڑے ہو گئے۔ ایک طرف پولنگ کا عمل نہایت سست روی سے آگے بڑھ رہا تھا تو دوسری جانب سورج نصف النہار کی جانب تیزی سے گامزن تھا، لیکن عوام کی ثابت قدمی دیدنی تھی۔ سلام پاکستان!
یہ قطاریں دیکھ کر ملک کے دیگر حصوں کے” جاگیرداروں” کی طرح کراچی کے جاگیرداروں کی صفوں میں بھی کھلبلی مچی ہوئی تھی ۔ وہ حیران و پریشان تھے کہ یہ اتنے لوگ کہاں سے نکل آئے، اور اتنی استقامت سے کیسے کھڑے ہوئے ہیں قطاروں میں۔ ارے گزشتہ پانچ برسوں میں سی این جی کی قطاروں میں کھڑا کر کے تم نے ہی تو تربیت دی تھی ہمیں ۔ چودہ چودہ گھنٹے بجلی بند کر کے تم نے ہی تو گرمی برداشت کرنے کی ٹریننگ دی تھی ہمیں۔ اس وقت اگر تمہیں حیرت نہیں ہوئی تو پھر آج ہماری برداشت پر حیرت زدہ کیوں ہو؟سلام پاکستان!
قطار میں کھڑے لوگوں کی غالب اکثریت نامعلوم افراد سے نجات کی خواہاں تھی۔ بیس بائیس برس کے نوجوان ہی کیا، کئی ادھیڑ عمر کے افراد بھی زندگی میں پہلی مرتبہ ووٹ ڈالنے آئے ہوئے تھے۔ آج کراچی کے یہ سب پاکستانی ، پاکستان کے لئے گھروں سے نکل آئے تھے۔ اور آج اس الیکشن کے دن کو بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور ہڑتالوں کے خلاف یوم یکجہتی کے طور پر منا رہے تھے ۔ سلام پاکستان!
تین چار گھنٹے کی صبر آزما جد و جہد کے بعد قطار میں کھڑے لوگ بالآخر اپنا ووٹ کاسٹ کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔ کسی کے سر میں درد ہو رہا تھا تو کوئی پسینے میں شرابور تھا۔ تاہم سب کے چہروں پر یک گونہ اطمینان تھا کہ “نامعلوم افراد “کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرا دیا ہے ۔ سب شاداں تھے کہ نامعلوم دہشتگردوں کے خلاف نہی عن المنکر کے طور پر اپنا حق رائے دہی استعمال کر دیا ہے۔ پیچھے ایک طویل قطار ہنوز موجود تھی ، سلام پاکستان!
سورج زوال کی طرف تیزی سے بڑھ رہا تھا جبکہ کراچی کی جاگیردار جماعت اس سے کہیں زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ زوال کی جانب گامزن تھی ۔ دن ڈھلے نامعلوم کارکنوں کا حوصلہ جواب دے گیا ۔ ادھر جماعت اسلامی کے بائیکاٹ کے اعلان کے بعد جماعت اسلامی کے پولنگ ایجنٹس بھی پولنگ اسٹیشنز سے اٹھ کھڑے ہوئے جن کے چلے جانے کے بعد تو نامعلوم افراد کو کھلی چھٹی مل گئی ۔ اب ووٹرز کی شامت آ گئی ۔ دھونس دھمکی کے عادی نا معلوم بدمعاش ، ووٹرز کو گالیاں دینے لگے کہ تم سب ہمارے بجائے دوسروں کو کیوں ووٹ ڈال رہے ہو؟ سلام پاکستان !
ایک پاکستانی نے بتایا کہ وہ جب بیلٹ پیپر پر مہر لگانے لگا تو ایک نامعلوم فرد نے بیلٹ پیپر اس کے ہاتھ سے چھیننے کی کوشش کی لیکن اس پاکستانی نے کمال جرات و بہادری سے اس کی یہ جسارت ناکام بنا دی اور اپنا حق رائے دہی استعمال کر ڈالا جو کہ ظاہر ہے “نامعلوم افراد “کے خلاف ہی تھا۔ ایک اور پاکستانی نے بتایا کہ اسے بھی ایک نامعلوم فرد نے بیلٹ پیپر پر اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے سے روکنے کی کوشش کی تو اس نے الٹا اس نامعلوم فرد پر ہی چڑھائی کر ڈالی کہ تمہارے اس عمل سے پیچھے کھڑے سو افراد کا ذہن بھی تبدیل ہو چکا ہے ۔ ایک خاتون نے بتایا کہ وہ اندر پہنچی تو بیلٹ پیپر ہی ختم ہو چکے تھے لیکن خواتین انتظار کرتی رہیں۔ اللہ اللہ کر کے بیلٹ پیپر آئے تو انہوں نے جب بیلٹ پیپر پر نامعلوم افراد کے خلاف مہر لگائی تو وہاں موجود ایک نامعلوم خاتون نے کہا کہ آپ نے انتخابی نشان پر مہر نہیں لگائی ، دوبارہ مہر لگائیں انتخابی نشان کے اوپر ، ورنہ آپ کا ووٹ ضائع ہو جائے گا۔ جس پر انہوں نے حاضر دماغی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ چلو ضائع ہوتا ہے تو ہونے دو، دوبارہ مہر تو میں ہرگز نہیں لگاؤں گی ۔ سلام پاکستان !
شہر کے بہت سے پولنگ اسٹیشنز پر پولنگ کا عملہ “نامعلوم ” وجوہات کی بنا پر خاصی تاخیر سے پہنچا ۔ لیکن ووٹرز بہر حال ڈٹے رہےاور صبر و استقلال کے ساتھ انتظار کرتے رہے۔ ان مقامات پر پولنگ خاصی تاخیر سے شروع ہوئی ۔ شام میں پولنگ کا وقت ختم ہو گیا لیکن ووٹرز کی قطاریں ختم نہ ہو پائیں۔ جس کے باعث الیکشن کمیشن آف پاکستان کو پولنگ کا وقت ایک گھنٹہ بڑھانا پڑا ۔ سلام پاکستان !
لیکن پھر اس ساری جد و جہد پر شب خون مار دیا گیا ۔ مقررہ وقت پر پولنگ اسٹیشنز کے بند ہو جانے والے دروازے نامعلوم افراد کے لئے کھلے رہے جنہوں نے رضاکارانہ ووٹ کاسٹ کرتے ہوئے کشتوں کے پشتے لگا دیئے۔ پولنگ اسٹیشنز پر تعینات عملہ ، پولیس اہلکار ، رینجرز …. کہیں یہ بے بس تھے اور کہیں اس کارخیر میں شامل ۔ سو ریکارڈ ووٹ کاسٹ ہوئے۔ اور ایسے اندھا دھند کہ رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد سے کئی گنا زیادہ ووٹ کاسٹ ہو گئے۔
ہمارے بھی کچھ متعلقین پولنگ اسٹیشنز پر ڈیوٹی سر انجام دے رہے تھے ۔ انہوں نے صورتحال یہ بتائی کہ جب ڈبے کھلے تو نامعلوم افراد بھاری مارجن سے شکست کھا چکے تھے ۔ لیکن پھر نامعلوم رضاکاروں نے چھپائی شروع کی ، ٹھپا ٹھپ ، ٹھپا ٹھپ ، ٹھپا ٹھپ ۔۔۔ اور صرف اسی پر بس نہیں کی گئی بلکہ مخالف ووٹ پھاڑے گئے یا دوہری مہریں لگا کر ضائع کئے گئے۔ ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہئے ۔
پھر نتائج آنے شروع ہوئے تو کراچی کا پہلا نتیجہ رات ایک بجے سنایا گیا جس کے مطابق شہر کے ایک حصہ سے مسترد شدہ نمائندہ ، نامعلوم افراد کے قلب سے تقریباً پونے دو لاکھ ووٹ حاصل کر کے کامیاب قرار پایا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس حلقے میں فی گھنٹہ 1800 ووٹ، فی منٹ 300 ووٹ اور فی سیکنڈ 5 ووٹ کاسٹ ہوئے ۔ کچھ حلقے اسے ورلڈ ریکارڈ بھی قرار دے رہے ہیں ، واللہ اعلم۔ بہرحال اس واحد نتیجے کے بعد کراچی کے مزید کسی حلقے کے نتیجے کے لئے اہل کراچی کو اگلے دن کا انتظار کرنا پڑا۔ اس دوران ہونے والی نامعلوم ووٹنگ سب کے علم میں ہے ۔ اور پھر اگلے روز میڈیا پر نا معلوم افراد کی “فقید المثال کامیابی ” کے تذکروں کی بھرمار تھی۔ نجانے کیوں اس “تاریخی” کامیابی کے باوجود نا معلوم افراد نے ماضی کی طرح جشن کامیابی نہیں منایا ۔ شاید کھسیاہٹ بہت شدید تھی ۔
کراچی کی باشعور عوام نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا ۔ نامعلوم افراد کے گھروں میں صف ماتم بچھ چکی تھی ۔ اگلے روز “مجلس شام غریباں “سے خطاب کرتے ہوئے نامعلوم افراد کے “ڈی پورٹڈ سرغنہ ” نے دھمکی دی کہ اگر اسٹیبلشمنٹ کو کراچی کے عوام کا فیصلہ منظور نہیں تو کراچی کو پاکستان سے علیحدہ کیوں نہیں کر دیتے ، نیز یہ بھی فرمایا کہ ابھی اپنے ساتھیوں کو حکم دوں تو تین تلواروں کو اصلی تلواروں میں تبدیل کر دیں گے… جس کی تشریح نامعلوم افراد کے “راضی برضا ” ترجمان نے ایک ٹی وی پروگرام میں یہ کی کہ وہ اتحاد ، تنظیم اور یقین محکم کو اصلی شکل میں بدل دیں گے۔ اب اس اتنی اچھی بات کو اتنے غصے میں کرنے کی کیا ضرورت تھی چیف صاب کو، یہ تو نامعلوم افراد ہی بہتر بتا سکیں گے۔
ان دھمکیوں پر تعلیم یافتہ اور با شعور شہریوں نے لندن میٹروپولیٹن پولیس ڈیپارٹمنٹ میں فون کر کے شکایات درج کرانی شروع کر دیں کہ برطانیہ کا ایک شہری پاکستان کے عوام کے خلاف دہشت گردی کی کھلی دھمکیاں دے رہا ہے ۔ ذرائع کے مطابق ان شکایات کی تعداد پانچ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ یقیناً لندن انتظامیہ کی جانب سے چیف صاب کی کھنچائی ہوئی ہو گی کہ حضرت کو اگلے ہی دن اپنے بیان کی تردید کرنی پڑی ۔ سلام پاکستان !
آخری خبریں آنے تک چیف صاب نا سازیٔ طبع کے باعث اسپتال میں داخل ہو چکے ہیں ۔ یقیناً اس وقت وہ جس ٹینشن سے گزر رہے ہیں اس میں ڈائیریا میں مبتلا ہو جانا عین ممکن ہے ۔ عوام سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ چیف صاب کے لئے خصوصی دعائیں مانگیں ۔ اور یہ تو عوام جانتے ہی ہیں کہ دعا کیا مانگنی ہے ۔ سلام پاکستان !

Blog at WordPress.com.